تحریر : عبدالجبار خان دریشک پوری دنیا میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کی مناسبت سے خواتین کے حقوق کے حوالے مختلف تقاریب پروگرام اور سیمنار منقعد کیے جاتے ہیں۔ تاکہ معاشرے میں عورت کے حقوق اور ان متعلق آگاہی دی جائے، اس دن کو جہاں تقاریب ہورہی ہوتی ہیں ان میں جوشلی تقرریں کی جا رہی ہوتی ہیں تالیاں بجائی جارہی ہوتی ہیں وہیں اتنی دیر میں سینکڑوں خواتین تشدد کا شکار ہو رہی ہوتی ہیں، کئی قتل ہو چکی ہوتی ہیں اور کچھ اس دن سے بے خبر اپنی اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک کی کل آبادی کا تقریباً نصف خواتین کی آبادی پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان کی شہری آبادی تیس فیصد سے زیادہ اور دیہی آبادی کل پاکستان کی آبادی کا 68 فیصد ہے اسی طرح پاکستان کی خواتین کی کل آبادی کا 68 فیصد دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔
دیہی خواتین کو ایک تو تعلیم سے دور رکھ جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں کے فرسودہ رسم رواج ، ذات پات ، برداری ، اور سب سے بڑی وجہ دیہات میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے اداروں کی کمی کا ہونا شامل ہے ۔ لیکن اس کے باوجود دیہی خواتین بہت باہمت ، حوصلے مند و محنتی اور جفاکش ہوتی ہیں یہ خواتین اپنی گھریلو ذمہ پوری کرنے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتی ہیں اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا دیہی خواتین مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔
پاکستان کے دیہاتوں اور علاقوں میں مختلف رسم رواج رائج ہیں، اور ان علاقوں کی خواتین اپنے علاقے کی ثقافت اور رسم رواج کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں۔ یہ خواتین گھر کے کام کاج اور کھیتوں میں کام کرنے کے باوجود مزید وقت نکال کر اپنے علاقے کی ثقافت کے مطابق کچھ نہ کچھ اشیاء تیار کرتی رہتی ہیں۔ یہ اشیاء اکثر اپنے گھر کی سجاوٹ ، بچیوں کے جہیز میں دینے کے لیے ، یا پھر کسی کو تحفے کے طور پر دینے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ کچھ خواتین ان اشیاء کو فروخت کر کے اپنی ضرورت و گھریلو اخراجات پورا کرتی ہیں۔
پاکستان میں مختلف ثقافتوں کے پائے جانے کی وجہ سے یہاں کی خواتین کے ہاتھ سے بنی گھریلو ضروریات کی اشیاء جو کہ انتہائی خوبصورت اور دیدزیب ہو تی ہیں جو گھر وں میں روزمرہ کے استعمال میں لائی جاتی ہیں جو کہ خواتین گھر میں تیار کرتی ہیں جن کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اشیاء انتہائی محنت اور نفاست وسلیقے تیار کی گئی ہیں۔ یہ خواتین مختلف قسم کی سلائی کڑائی، کشیدہ کاری سے مختلف چادریں بیڈ شیٹ ،میز پوش ، صندق پر ڈالنے کے کپڑے اس کے علاوہ پرانے کپڑوں کے ٹکڑوں سے بیڈ شیٹ جسے مقامی زبان میں گیندی کہا جاتا ہے وہ بناتی ہیں موتیوں سے بنے پراندے و نالے اور خاص کر کھجور کی چھڑیوں اور پتیوں کو کارآمد بنا کر ان سے برتن، ہاتھ والے پنکھے اوردیگر استعمال کی اشیاء تیار کرتی ہیں۔ کھجور کے پتوں کو مقامی زبان بھو ترے کہا جاتا ہے جس سے روٹی رکھنے والی چھابی جسے مقامی زبان میں چھبی کہا جاتا ہے اور بڑے چھبے مو ڑے مخباجے (روٹی رکھنے والا ہاٹ پاٹ )سندھڑے (اس میں کپڑے چادریں رکھے جاتے ہیں)پنکھے چٹائیاں چار پا ئی کا بان وغیرہ گھر پر تیار کرتی ہیں۔
خواتیں ایسی چیزیں کو بہت کم فر وخت کرتی ہیں، دیہی خواتین یہ اشیاء اور برتن وغیرہ اپنے گھروں میں استعمال لاتی یاپھر اپنی بچیوں کو جہیز یا کسی رشتہ دار کو با طور تحفہ دیے دیتی ہیں اگر یہ اشیاء فروخت کرنی ہوں تو جب یہ خواتین شہر جاتی ہیں تو ہاتھ بنی اشیاء فروخت کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہیں پہلے ان کی کو شش ہو تی ہے کسی گھر میں فروخت ہو جائیں اور با حالات مجبوری کسی دوکاندار کے پاس فروخت کر تی ہیں، جہاں ان کو پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ حکومتی سطح پر دیہی خواتین کے لیے ووکشنل سنٹرز قائم کیے جائیں ان کو بہتر تربیت دے کر ان کو روزگار کمانے کے قابل بنایا جائے جبکہ کہ دستکاری کے لیے مشینیں مفت یا پھر آسان اقساط پر فراہم کی جائیں، تیار شدہ اشیاء کو خرید کرنے اور نمائش میں شامل کرنے کا بندوبست کیا جائے تو دیہی خواتین کو بہتر روزگار کے ساتھ یہ اشیاء باہر ممالک بھجوا کر ملک کے لیے بھی زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔