تحریر: صادق مصطفوی پاکستان کے بااختیار حلقہ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت کی کہانیاں اس وقت میڈیا کی شہ سرخیاں بنی ہوئی ہیں۔ سینٹ الیکشن سے پہلے اس کا سب انکار کرتے رہے مگر جب سینٹ کے الیکشن کے بعد نتائج نے سب کچھ واضح کر دیا تو جماعتوں کے قائدین نے آہستہ آہستہ اس کا اظہار بھی کرنا شروع کر دیا۔ عوام کی اکثریت تو پہلے ہی اس سے باخبر تھی مگر جماعتوں کی قیادت کی زبانی اس کا اظہار ہونا باقی تھا وہ بھی عوام نے سن لیا۔
تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے بارے میں عمران خان نے خود میڈیا پر افسوس کے ساتھ اعتراف کیا ۔ حالانکہ عمران خان کو اس پر افسوس نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ تحریک انصاف کی اکثریت تو انہی جماعتوں سے ہے جن کو انہوں نے سینٹ الیکشن میں ووٹ دیا ہے ۔ اور ان ممبران کی تحریک انصاف میں انٹری بھی ایسی ہی صورت میں ہوئی تھی جب ان کی سابقہ جماعت میں پہلے والی پوزیشن نہیں رہی یا کسی دوسرے امیداوار کے آنے سے آئندہ کا ٹکٹ نہ ملنے کا خطرہ دیکھتے ہوئے تحریک انصاف میں چھلانگ لگا لی۔ سینٹ الیکشن میں ہونے والی نیلامی پر کراچی سے پاک سر زمین پارٹی کے رہنمامصطفی کمال نے کمال کا تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی نے سینٹ کی نیلامی میں اس لیے حصہ لیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اب ہم اس خریدو فروخت کا حصہ نہیں بنتے تو ہماری جماعتوں کے سربراہان نے چیئر مین سینٹ کی دوڑ میں ہمارے ووٹ کو تو بیچنا ہی ہے اور اس کا فائدہ قیادت کو ہونا ہے تو کیوں نہ ہم پہلے ہی اس سے فائدہ اٹھا لیں۔
ایک طرف پاکستان کے سب سے اعلی ایوان کیلئے اپنے ووٹ کو چند کروڑ میں بیچنے والے ہمارے بااختیار طبقہ ارکان اسمبلی ہیں جن کو عوام اسمبلیوں میں بھیجتی ہے مگر وہ نہ صرف اپنے ضمیر کا سودا کرتے نظر آتے ہیں بلکہ عوام کی امیدوں کا خون بھی کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسی پاکستان میں ہمیں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایسے کارکن بھی نظر آتے ہیں جن کو حکومت وقت 30,30 کروڑ کے لالچ دے کر بھی خرید نہ سکی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے والے ان کارکنوں کو کوئی بھی دھمکی یا حکومتی غنڈوں کا خوف جھکا نہ سکا اور آج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کیلئے لٹکتی ہوئی تلوار بنے ہوئے ہیں۔
اگر ہم سینٹ کی نیلامی میں بکنے والے ارکان اسمبلی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے ورثا کا جائزہ لیں تو صاف فرق نظر آئے گا کہ ایک طرف غریب کارکنان ہیں جن کے پاس ایمان کی طاقت کے سوا کچھ نہیں اور دوسری طرف کرپشن اور دھاندلی کے زور پر اسمبلی میں پہنچنے والے وہ ارکان اسمبلی ہیں جن کے پاس دنیا کی عیش و عشرت کا سب سامان موجود ہے ۔ جن کو اپنی خود کی جائیدار کا حساب بھی نہیں، مگر دولت کی ہوس میں ایسے گم ہوئے ہیں کہ ضمیر، غیرت ، وقار، جیسے الفاط ان کی زندگی سے ہی کوسوں دور ہو گے۔
پاکستان کی دوسری جماعتوں کی بات تو نہیں کروں گا لیکن تحریک انصاف کیلئے عمران خان کی بات ضرور کی جا سکتی ہے جو تبدیلی کا نعرہ لے کر اس ملک کی حالات بدلنے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی صفوں میں ان کو ہی شامل کرتے ہیں جن پر آج میڈیاپر افسوس کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان کو اب احساس ہو جانا چاہیے کہ اس نظام میں اور اس نظام کی پیدوار ان سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔ جیسے وہ آج میڈیا پر بیٹھ کر اپنی ہی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کے بکنے کا اعتراف کر رہے ہیں ۔ الیکشن 2018کے بعد بھی عمران خان اگر ایسی پریس کانفرنس سے بچنا چاہتے ہیں تو اس نظام سے باہر آ کر اس حقیقی تبدیلی کی کوشش کریں ۔ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کی ایسی نظریاتی تربیت کرنا ہو گی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے ورثا کی طرح ایسی استقامت ہو کہ کوئی لالچ ان کو خرید نہ سکے کوئی خوف ان کو جھکا نہ سکے۔