تحریر : طارق حسین بٹ شان برِصغیر پاک و ہند ایک ایسا خطہ ہے جس کے باسیوں کے خمیر میں غلامی کے طوق کو اپنے گلے میں لٹکائے رکھنے کی مہلک اور نفسیاتی بیماری لا حق ہے کیونکہ قرن ہا قرن سے وہ تفاخر وکمتری کے جذبوں کے اسیر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غلامانہ طرزِ زیست کے اسیر کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے حکمرانوں کو خود سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے وہ ان کی عظمتوں کے گن گاتے نہیں تھکتے ۔وہ ہمیشہ ان کی برتری اورما فوق الفطرت خوبیوں کے لئے نغمہ سرا رہتے ہیں اور انھیں دوسروں سے اعلی وارفع ثابت کرنے میں اپنا سارا زورِ بیان صرف کرتے رہتے ہیں۔ان میں یہ خوبیاں ہوتی ہیں یا کہ نہیں اس سے بحث نہیں ہوتی لیکن چونکہ وہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بہت سی خو بیاں ان کی ذات سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔
مڈل کلاس گھرانے کا کوئی فرد چاہے اشرافیہ کے افراد سے کتنا ہی زیادہ ذہین،باشعور ،امین، دیانتدار، اور دانشور ہو اس کی خوبیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی جگہ اشرافیہ کے گھسے پٹے افراد سے ملک کی تقدیر وابستہ کر دی جاتی ہے۔ یہ جو ہم موروثی سیاست کو روبعمل دیکھ رہے ہیں تو اس کی جڑیں بھی اس طرح کی غلامانہ سوچ میں مضمر ہیں۔ہم لاکھ ا س کی مذمت کریں ،اس کے خلاف لکھیں،اس پر اعتراضات اٹھائیں لیکن عوام کی اکثر یت اس طرح کی سوچ کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتی کیونکہ وہ ذہنی طور پر غلامی قبول کر چکی ہوتی ہے۔جو غلامی پر قانع ہو جائے اس کو کوئی آزادی کی راہ نہیں دکھا سکتا ۔ہماری بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت سی خصوصی خصوصیات کا حامل تصور کرنے لگ جاتے ہیں لہذا ان کے لئے نعرہ زن ہونا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے سوئی ہوئی قوم کے تنِ مردہ میں جان ڈال کر انھیں دنیاکی سب سے بڑی اسلامی ریاست کیلئے جدو جہد پر آمادہ کیا تو اسے ان کی علمی ادبی دانش ،دور نگاہی، بصیرت اور قائدانہ خصوصیات کا عظیم ترین کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے حالانکہ قوم تو ذہنی طور پر غلامی کیلئے بالکل تیار تھی۔
عوام الناس پیروں ،سرداروں،جاگیر داروں اور اشرافیہ کے ہاتھوں یر غمال بنے رہتے ہیں لہذا وہ ساری حیاتی ان کے سامنے حقیر اور کم تر بنے رہتے ہیںیہ جانتے بوجھتے کہ وہ کسی بھی طرح سے خصوصی کمالات نہیں رکھتے لیکن پھر بھی ان کے درِ دولت پر سجدہ ریز رہتے ہیں۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن برِ صغیر میں اس طرح کی سوچ کو بدلنا بڑا مشکل ہے کیونکہ یہاں پر ترقی پسند سوچ پر جمود کی کیفیت طاری ہے۔ جس بات پر پچھتاوا ہونا چائیے وہی فخر بن جائے تو رونے کا مقام ہوتا ہے ۔امریکہ یورپ اور دوسرے ترقیاتی پذیر ممالک میں اس طرح کی سوچ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اسی لئے وہ اقوام ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں۔ان کی نظر میں کسی کو جانچنے اور پرکھنے کا معیاران کی ذاتی خوبیاں ہوتی ہیں نہ کہ خاندانی تفوق اور تفاخر ۔ اب ذات پات کے خانوں میں بٹی ہوئی قوم اعلی و ادنی کی سوچ کی اسیر نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ وہ قوم جو صدیوں سے اعلی و ادنی کے نظریے میں ڈوبی ہوئی تھی اب اس نے دولت کو اپنا الہ بنا لیا ہے اور اس کی پناہ میں اپنی نجات دیکھ رہی ہے۔وہ دولت کی چکا چوند میں اپنا سب کچھ بیچنے کیلئے تیار ہے۔ضمیر فروشی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔بکنا اور خریدنا کوئی عیب اور گناہ نہیں رہا۔قوم اخلاقی طور پر اتنی بانجھ ہو جکی ہے کہ عوام حیران و پریشان ہیں ۔باعثِ حیرت ہے کہ اس کریہہ فعل پر پوری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے لیکن خریدنے اور بیچنے والوں کو کسی بھی قسم کا کوئی ملال نہیں ہے۔وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا گندا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسے اپنی چابکدستی قرار دے رہے ہیں۔،۔
میرے وطن کے ناخدائو تمھاری خیر ہو،تم دودھوں نہائو پوتوں پھلو کہ تم نے اس غریب عوام کو ضمیر فروشی کا نیا بیانیہ دیا ہے۔کرپشن میں لت پت یہ ملک تمھاری رہبری میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا اور دنیا میں کرپشن اس کی نئی پہچان بنے گا جس پر ہم اقوامِ عالم سے منہ چپھاتے پھریں گے۔ہمارے رہبروں کا کام تو ہمیں اقدار اور اصول پرستی کا درس دینا تھا لیکن انھوں نے ذاتی مفاد کی خاطر ضمیر فروشی کا نیا دھندہ شروع کر کے سچائی کا خون کر دیاہے جس پر ہم شرمندہ ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جس طرح دولت پرستی کا جادو چلا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اس وقت پی پی پی سب کی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے کیونکہ پی پی پی نے ہر صوبے میں دوسری جماعتوں کے ممبران کو خرید کر اپنے سینیٹر منتخب کروائے ہیں ۔ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ مقامِ عبرت ہے ۔ جب بھی کوئی جماعت اپنی صفوں میں اتحادو اتفاق کی دولت سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور ظالم گرگ اس پر نقب لگا لیتے ہیں۔ایم کیو ایم کسی زمانے میں پاکستان کی انتہائی منظم جماعت تصور ہو تی تھی لیکن اب جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے جس کا بھر پور فائدہ پی پی پی نے اٹھایا اور اس کے ممبران کی بولی لگا دی۔مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ممبران دولت کی چمک دھمک کے سامنے اپنا ضمیر ہار گئے۔وہ دولت کی حر ص کے سامنے اصولوں کا خون کر بیٹھے۔وہ دولت کی طاقت کے سامنے اپنے موقف کو قربان کر بیٹھے۔وہ اپنے کل کی خاطر قوم کے کل کو داغدار کر گئے۔دوسری جگہ بھی ممبران بکے ہیں لیکن ایم کیو ایم جیسی پڑھی لکھی قیادت کی موجودگی میں مڈل کلاس کے ممبران کا بکنا قومی جرم ہے ۔ایم کیو ایم جیسی منظم جماعت سے اس طرح کے رویوں کی توقع نہیں تھی۔
انھوں نے جس طرح اپنی پیشانیوں پر برائے فروخت لکھا ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے ڈٹ جانے والی جماعت آخرِ کار انہی کے سامنے کاسہِ گدائی لے کر کھڑی ہو گئی۔جن کی مذمت ساری عمر کرتے رہے ایک دن انہی کے سامنے بھکاری بن کر انھیں ان داتا بنا ڈالا ۔میری ذاتی رائے ہے کہ یہ مڈل کلاس ہی تو ہے جو پاکستان کے استحکام کی ریڑھ کی ہڈی ہے لہذا اگر وہ بھی کھوکھلی نکلے گی تو پاکستان کے وجود پر کئی سوالیہ نشان لگ جائیں گے ۔جن سے اعلی کردار کے مظاہرے کی توقع تھی وہی ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے۔اشرافیہ تو ہمیشہ سے ہی بکتی آئی ہے۔کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بکتی ہے،کبھی وہ انگریزوں کے سامنے بکتی ہے، کبھی وہ اقتدار کی خاطر بکتی ہے اور کبھی مال و دولت کیلئے بکتی ہے لیکن جن کیلئے اصول و ضوابط،اقدار،اورحق و صداقت اہم ہوتے ہیں وہ بھی اجلی سوچ سے دامن بچا نا شروع کر دیں تو معاشرہ کس طرح اپنے وجود کو قائم رکھ سکے گا؟ پی پی پی جس کے قائدین نے جمہوریت اور سچائی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے ہیش کئے تھے آج وہی جماعت ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہے۔وہ سینیٹ میں اپنا چیرمین لانے کیلئے اس حر بے کو ایک دفعہ پھر آزمانے کیلئے بیتاب ہے۔
پی ٹی آئی جس کے نئے پاکستان کے نعرے سے پاکستان کے درو دیوار ہل رہے ہیں اس کے ممبران بھی کھلے عام بکے ہیں۔انھوں نے دولت کو اپنی جماعت پر ترجیح دی ہے ۔ کیا یہی نیا پاکستان ہے ؟ عمران خان اس وبا سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کی کون سنتا ہے۔جھنیں بکنا تھا وہ بک گئے۔پی ٹی آئی کے چوہدری محمد سرور پنجاب سے سینیٹر منتخب ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ان کے ٤٤ ووٹ باعثِ نزاع بنے ہوئے ہیں اور ان کی جیت کو ہارس ٹریڈنگ کا شاخسانہ بتا یاجا رہا ہے ۔ چوہدری سرور کی جیت کو شفاف نہیں کہا جا سکتا۔لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان اس طرح کی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ جس طرح ہارس ٹریڈنگ پر برس رہے ہیں اس سے اس نتیجہ پر پہنچنے میں چنداں دشواری نہیں ہ نی چائیے کہ وہ اس طرح کے گندے حربوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ان کے طرزِ سیاست اور بیانیہ پر سوال ٹھا یا جا سکتا ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ جیسے غیر اخلاقی جرم میں ان کو ملوث نہیں کیا جا سکتا لہذا انھی ںچوہدری سرور کے انتخاب پر بھی تنقید کرنی چائیے ۔جو بات غلط ہے وہ چوہدرہی سرور کیلئے بھی غلط ہے ۔غلط کو غلطکہنا جرات مند انسانوں کا خاصہ ہوتا ہے اور ہمیں اس وقت ایسے ہی موقف کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسی موقف میں پاکستان کی یترقی اور استحکام کا راز مضمر ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال