تحریر : شہیر سیالوی رعب و دبدبہ ایسا کہ دشمن کا سانس تک رک جائے، جوش و ولولہ ایسا کہ دشمن ملک پاکستان کے اس سپوت کو بنا نشانہ لیے، بنا کوئی گولی چلائے دشمن ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ مان لے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لگتا ہے جیسے حضرت علامہ اقبال رحمتہ الل? علیہ کا یہ شعر پاکستان کے سپوت شاہیر سیالوی کے لیے لکھا گیا ہو وطن سے محبت، لگاو? ایسا کہ سارا سال، ہر دن ہر رات وطن کے لیے خیبر سے لے کر کراچی اور اسلام آباد سے لے کر گوادر تک ہر جگہ یہ نوجوان ہڈیوں کو سرد کر دینے والی راتوں اور تپتے صحراؤں کے دنوں میں سرگرم اور سرگرداں نظر آتا ہے۔
جوش و ولولہ ایسا کہ ٹوٹی ہڈیوں کو بھی اس نوجوان کے عزائم اور ارادوں کے آگے شکست کھانی پڑے۔ پاکستان کے اس سپوت کو اگر آزمانا ہو تو بھارت جیسے ملک کو اجیت دول نام کے ایجنٹ دہائیوں کی پاکستان دشمنی اور ہندوتوا سوچ لے کر پالنے پڑتے ہیں اور جب اس دول کی تخریب کاریوں اور پاکستان دشمنی پر مبنی سوچ پر عمل درآمد کا وقت آئے تو اسے پاکستان میں شاہیر سیالوی نام کا نوجوان عملی میدان میں بھارت جیسے ازلی دشمن کی ساری سازشوں کو دھول چٹاتا نظر آتا ہے۔
نظریہ پاکستان، اسلامی مملکت، پاکستانیت اور حب الوطنی کی جیتی جاگتی تصویر کو اگر دیکھنا ہو تو شاہیر سیالوی کو نظر بھر کر دیکھ لیا جائے پاکستان سے محبت ایسی کہ ہرہر یونیورسٹی، سکول، کالج میں نظریہ پاکستان کا پرچار کرتا نظر آئے، لگاو ایسا کہ نظریات پر کتاب لکھ کر اسے سینکڑوں کی تعداد میں مفت نوجوان نسل کو بانٹ دے۔
پاکستان کا ایسا نوجوان سپوت جس کے ایک اشارے اور نعرے لبیک یارسول اللّٰہ پر نہ صرف ایوان بالا کی دیواریں لرز جاتی ہیں بلکہ اگر یہ نوجوان چاہے تو پاکستان میں بنا مارشل لاء کسی بھی کرپٹ، چور پارلیمنٹ کو گرا سکتا ہے۔
ملک پاکستان میں لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کے بعد اگر پاکستانی قوم کو حب الوطنی اور وطن پرستی کے نام پر یکجا کرنے کی طاقت کوئی رکھتا ہے تو وہ شاہیر سیالوی ہے امید ہے حب الوطنی سے سرشار یہ نوجوان پاکستانی مسقبل میں بھی آج کی طرح بنا کسی لالچ اور مفاد اسی طرح ملک کے لیے خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔