تحریر : میر افسر امان ہم نے اپنے گذشتہ کالم میں ،کتاب ”مولانا ابو الجلال ندوی ” میں بیان کی گئیں بنیادی معلومات قارئین کے سامنے پیش کی تھیں۔ جبکہ اسی کتاب میں درج مولانا کی کچھ علمی خدمات کو اس کالم میں بیان کریں گے۔ مولانا عبرانی زبان کے ماہر، عربی اردو اور فارسی کے قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ مولانا اپنے خاندان کو محمد بن ابو بکر کی صلب سے جوڑتے ہیں۔کہتے ہیں ہمارا خاندان محمد بن ابوبکر سے ملتا ہے۔ کیونکہ محمد بن ابو بکر واقعہ غار ثور کے بعد مدینہ میں پیدا ہوئے۔اس لیے ہم صدیقی بعدالغاری ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ محمد بن ابو بکر کی اولاد ہونے کا اعزاز رکھنے والے ،اس صدیقی خاندان، کی اعظم گڑھ میں موجودگی کا ذکر قاضی محمد سلیمان منصوری نے اپنی معرکہ آرا کتاب” رحمة للعالمین” میںبھی کیا ہے۔ صدیقی خاندان کی یہ شاخ بعد الغاری کہلاتی ہے۔ مصنف کہتے ہیں ہمارے اسلاف میں اکثر اپنے نام کے ساتھ اس اعزاز کو بھی لکھا کرتے تھے۔ مولانا پہلے چریا کوٹ میں ایک اُردو اسکول میں پڑھتے تھے۔ اس کے بعد ان کو گورگھپور میں اپنے خالو ،ایڈو گیٹ محمد حسن عباسی کے پاس انگلش اسکول میں داخل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ اُنہیں علی نگر کے انگلش اسکول میں داخل کیا گیا۔مولانا گورکھپور کے انگلش اسکول چھوڑ کے، مولانا فاروق چریا کوٹی کا ایک خط، ان کے شاگرد مولانا شبلی نعمانی کے نام لے کر ندواة العلماء لکھنو چلے گئے۔ مولانا نے ندواة العلماء میں جلیل القدر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں” اپنے اساتذہ میں سب سے زیادہ مولانا شبلی فقیہہ یاد ہیں۔شبلی جیرج پور کے رہنے والے تھے۔فقہ کی تعلیم دیتے تھے اور بہت پُرمذاق آدمی تھے”شبلی کے بعد مولانا امیر علی محدث سے حدیث کی تعلیم حاصل کی اور شیخ محمد عرب سے فقہ پڑھی۔ کہتے ہیں فقہ کا سبق جو ان سے پڑھا وہ مجھے آج تک یاد ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ” عقائد میں امام احمد بن حنبل، عبادات میں امام مالک اور معاملات میں امام ابو حنیفہ ،یہ سب ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔
امام شافی کے بارے میں کہتے ہیں”وہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو محمد کا مرکب ہیں” اب تک یہی میرا مسلک ہے ،کہ معاملات میں حنفی، عبادات میں مالکی اور عقائد میں حنبلی”۔مولانا کہا کرتے ہیں الغاری صدیقیوں کوسانپ نہیں کاٹتے۔کتاب کا مصنف اپنے خاندان کے حالات بتاتے ہوئے بیان کرتاہے کہ مولانا جب دارلمصنفین سے کبھی گھر آتے تو لکھنے پڑھنے کا سامان ساتھ لاتے ۔ جب لکھنے بیٹھتے تو ان کو ایک لالٹین دے دی جاتی۔ جب لالٹین کی چمنی کالی ہو جاتی تو دوسری لالٹین سامنے رکھ دی جاتی اور ان کو لالٹین بدلنے کی بھی خبر نہ ہوتی۔ایک دفعہ جب گھر آئے تو علمی محفل جم گئی۔ جس میں کچھ ہندو اہل علم بھی موجود تھے۔جب ہندوئوں کی مقدس کتابوں کا ذکر آیا تو مولانا نے ان کتابوں کے مندرجات بتانے شروع کیے ،تو ہندو کہنے لگے یہ تو ہمیں بھی معلوم نہیں تھا۔ اس پر ایک پنڈت جی نے کہا ، ان سے جس موضوع پر چاہو بات کر لو۔ ہر موضوع پر تفصیلات مل جائیں گی۔ مگران کے گھر میں صرف ایک کتاب ملے قرآن: مصنف لکھتا ہے ہمار خاندان ملکی خاندان ہے۔ ملکی خاندان اُن خاندانوں کو کہا جاتا ہے جن کی ملک یا ملکیت میں شاہان مغلیہ اور سلاطین سلطنت شرقی کے ادوار سے ریاستیں، اضلاع، پرگنے اور گائوں ہوتے تھے۔کہتے ہیں میں نے ”شاہ جہان نامہ” میں اپنے بزرگ ہمت احمد خان صدیقی کا تذکرہ پڑھا۔ جس میں انہیں ”خاں” کے لقب سے نوازہ گیا ہے۔ایک عرصہ تک ہمارے اسلام اپنے ناموں کے ساتھ خاں لکھا کرتے تھے مگر اب کوئی نہیں لکھتا۔مصنف لکھتے ہیں کہ میں بھارت گیا تو دارلمصنفین اعظم گڑھ کا دورہ کرنے کا موقعہ ملا۔١٩٨١ء میں مولانا صباح الدین عبدلرحمان دارالمصنفین کے ناظم تھے۔
ان کو جب پتہ چلا کہ پاکستان سے مولانا ابو الجلال ندوی کا بھتیجا آیا ہے تو وہ خود استقبال کے لیے تشریف لائے۔ پھر پورے دارالمصنفین کا دورہ کرایا۔ مولانا عبدالباری کو ہمارے لیے افسر میمان داری مقرر کیا۔ مولانا عبدالباری کو ایک کمرے کی کنجی لانے کو کہا۔ اس چابی سے ایک قدیم انداز کا بنا ہوا کمرہ کھولا۔یہ مہمان خانہ تھا۔ اس میں فریم کے اندر دارالمصنفین کے اوّلین رفقاء کے اسمائے گرامی تحریر تھے جس میں مولانا ابو الجلال ندوی کا نام بھی تحریر تھا۔دارالمصنفین اعظم گڑھ میں مولانا شبلی نعمانی کی عطیہ کی گئی زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔مولانا کا یہ اعزاز ہے کہ سید سلمان ندوی نے دارالمصنفین میں نئی آنے والی کتب پر تنقید و تبصرہ کرنے پر مقرر کیا۔ مولانا بتاتے ہیں کہ انہیں ایک کتاب ملی جو آئن اسٹائن کی کتاب”theory of relatvity” کا خلاصہ تھی۔صاحب ِکتاب نے اس ترجمہ کا نام” نظریہ اضافیت” رکھا۔ مجھے اس پر ریویو کرنے کا کہا گیا۔میں نے اپنی ریویو میں لکھا کہ ” آئن اسٹائن نے جو لکھا وہ ہمارے قدماء بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان کا علم ہم تک ان کے مخالفین کی تحریروں سے پہنچاتا ہے” (راقم :علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے)
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دِل ہوتا سیپارا
آئن اسٹائن تک ا بعاد( تین) مانے جاتے تھے۔ طول،عرض اور عُمق، یعنی لمبائی چوڑائی اور اونچائی۔ آئن اسٹائن نے ثابت کیا کی ایک بُعد زمانہ بھی ہے،یعنی ڈائی منشن” میرا یہ مضمون چھپا تو ان صاحب نے سید صاحب کو لکھا کہ”یہ کیا بات ہے کہ جب کوئی چیز یورپ پیش کردیتا ہے،تب آپ یہ کہتے ہیں یہ ہمارے پاس پہلے سے تھا”سید سلمان ندوی صاحب نے ان کو لکھ دیا کہ مضمون لکھنے والا جواب دے گا” میں نے جواب دیا کہ ہم نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ہے ان میں یہ باتیں ہیں کہ نہیں۔ان کتابوں پر آئن اسٹائن کے دستخط موجود ہیں۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں مان گیا۔ مولانا کہتے ہیں کہ سیرت نبیۖ کی تالیف میں معاونت کے لیے وہ مترجم مقرر کیے گئے تھے۔ اُن کا ترجمہ نظر ثانی کے لیے مجھے دیا جاتا تھا۔ میرے دیکھ لینے کے بعد وہ سید صاحب کے پاس جاتا تھا۔ سید صاحب اسے دیکھ کر کتاب میں شامل کرتے تھے۔(راقم اس سے معلوم ہوا کہ سیرت النبیۖ کتاب کی تالیف میں مولانا کا حصہ بھی شامل ہے) مولانا دارلمصنفین چھوڑ کر مدارس کے مدرسہ جمالیہ میں پرنسپل کے منصف پر فائز ہوئے۔اُنیس سال مدارس میں گزرانے کے بعد ایک دفعہ پھر ١٩٤٦ء میں مولانا دارلمصنفیں اعظم گڑھ آگئے۔پھر مولانا نے کتاب” اعلام القرآن” شروع کی جس کے مضامین کی تعریف ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس طرح کی۔” ڈاکٹر حمید اللہ نے کہا آسمان علم پر ایک نیا کوکب دُری ،ایک درخشاں تارا نمودار ہو گیا ہے۔خدا اِسے بہت دن تاباں رکھے۔
ان کی تحقیقات قابل رشک ہیں”رسالہ معارف کے مدیر شاہ معین الدین احمد ندوی صاحب نے اس انداز میں کیا۔”ہمارے پرانے رفیق اعلام القرآن پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ اس کتاب کے موضوع اصحاب نظر علما کے ذوق کے مطابق ہے”ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے کہا کہ ” ان کے مضامین علمی حلقوں میں بہت پسند کیے گئے ہیں” ۔ ایک بار پھر مولانا ١٩٥٠ء سے١٩٥٨ء تک مدارس میں مقیم رہے۔ مدارس میں مولانا نے دو اخبار جاری کیے ۔ہفتہ وار” بشر” اور سہ روزہ ”ملّت ” جو بعد میں روز نامہ ہو گیا۔ایک ماہانہ رسالہ بشریٰ بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ بشریٰ پر مولانا عبدالماجد دریا بادی صاحب نے لکھا ” اپنے طرز کا پہلا مذہبی،علمی و ادبی رسالہ ہے۔خدا کرے جنوبی ہند کی یہ خدمتِ مذہب وعلم وادب ہر طرح مفیدہو”مولانا اس کے بعد مہجوڈارو کے کتبوں کا مطالع کرنے پاکستان آ گئے۔ مولانا کو مناظرے کا بہت شوق تھا۔آریوں اور عیسائیوں سے بحثیں کرتے تھے۔ مولانا نے امام ابن تیمیہ کی ”کتاب الرّد علی المنطفین” کو نقل کیا ہے۔ یہ وہ کتاب جو بغیر نقتوں کے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کو صرف مولانا حمید الدین فراہی یا مولانا ابو الجلال ندوی نے پڑھا۔ مولانا کہتے ہیں انگریزوں نے ہند کوبنٹا اور مسلمانوں نے اس میں وحدت پید اکی۔(راقم اسی لیے مسلمانوں نے ہند پر ایک ہزار سال حکومت کی اور انگریز وں نے صرف دو سو سال حکومت کی اور پھر واپس چلے گئے)
صاحبو!مولانا کے لکھے ہوئے کام کو زیر تبصرہ کتاب ” ابو الجلال ندوی ” کے مصنف احمد حاطب صدیقی صاحب اوران کے علمی خاندان کے دیگر لوگوں کو چاہیے کہ اکٹھا کریں اور اسے شائع کریں ۔ان کی طرف سے یہی مولانا کی خدمت ہو گی۔