زرداری عمران سانجھے کی ہنڈیا سنجرانی و مانڈوی

Imran Khan and Asif Zardari

Imran Khan and Asif Zardari

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
سیاست میں ہر چیز ممکن ہے کچھ بھی نہ ممکن نہیں ہے ہمارے یہاں تو سیاست کی بنیاد ہی اِس ممکن اور نا ممکن پر قا ئم ہے اور شائد ہمیشہ ہی ہمارے سیاست اور سیاستدان ممکن کونا ممکن اور ناممکن کو ممکن بنانے میں ہی لگے رہیں کیوں کہ اِنہوں نے پچھلے ستر سالوں سے یہی سیکھا ہے تب ہی اِن کی سیاست اِس سے آگے نہیں جا سکی ہے اِس طرح اِنہوں نے عوام کو بے وقوف بنایا ہے اور اپنے اُلٹے سیدھے ذاتی اور سیاسی مقاصد حا صل کئے ہیں۔

اَب اِس میں کو ئی دورا ئے نہیں ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کی توقعات کے عین مطابق حیران کُن کامیابی اورجبکہ حکمران جماعت کی اُمید کے برخلاف منہ کھاتی شکست کا سامنا کرناپڑاہے یوں ایک بار پھر یہی خیال کیا جارہاہے کہ نوازشریف کی نااہلی اور سینیٹ کے الیکشن میں ن لیگ کی نا کامی کے بعد نواز شریف کا سیاسی باب کچھ نہیں تو تھوڑے عرصے کے لئے ضرور بند ہوگیاہے مگر پھر بھی ہماری مُلکی سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتاہے کبھی نہ کبھی جلد یا دیر نوازشریف کے حوالے سے کچھ نیا اور انوکھاہوسکتا ہے۔

بہر کیف ،آج اگر مُملکت پاکستان میں سیاست اُصولوں کی بنیا د پر چل رہی ہوتی تو اِس میں جمہوریت اور آمریت کی عمروں میں کم چھوٹا ئی بڑا ئی نہ ہوتی بلکہ اِن کی عمروں میں زمین آسمان کا واضح فرق ہوتا جیسا کہ دنیا کی دیگر اقوام اور ممالک میں(جہاں کہیںکسی وجہ سے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر آمریت پروان چڑھی) ہے وہاں جمہوریت آمریت کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑی ہے مگر بدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان میںآمریت اور جمہوریت کی عمروں میں بہت کم فرق نظرآتا ہے۔

اَب کو ئی کچھ بھی کہے مگر اِس حقیقت سے تو کم از کم کو ئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ جب سِول حکمران اپنے زعم میں حد سے بڑھ جا ئیں، خود کو بادشاہ اور اور اداروں کی خود بے تو قیری کرنے لگیں اور عوام کی اِن کی نظروں میںحیثیت کیڑے مکوڑوںجیسی ہو جا ئے تو پھر اِنہیںنکیل دینے کے لئے ہر دفعہ آمرکو آمریت کا ڈنڈا ہا تھ میں اُٹھا ئے میدان میں آنا ہی پڑتا ہے یقین جا نئیے کہ مُلک کے غرب عوام کو ہر مرتبہ سول جمہوری حکمران سے زیادہ آمر کی حکمرا نی میں ریلیف ملے ہیں۔

جبکہ سول حکمران جمہوریت کی دیوی کی پوجا پاٹ میں لگ کر عوام کو مہنگائی اور بھوک و افلاس کی چکی میںپیستا رہتاہے اور عوام کو ریلیف دینا بھول جاتا ہے اِس لئے درحقیقت مُلک پاکستان کے غریب عوام سول حکمران سے زیادہ آمر کی آمریت کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیو ں کہ آمر روپے کے بارہ آنے غریب پر خرچ کرتا ہے تو بچاہوا مُلکی امور میں لگاتا ہے اِس کے برعکس سول حکمران پورا کا پورا روپیہ خود ہی ہڑپ کرلیتے ہیں یہ نہ عوام پر کچھ لگا تے ہیںاور نہ مُلک پر خرچ کرتے ہیں جیسے سا بق وزیراعظم نوازشریف اینڈ فیملی کو ہیں جنہوں نے اپنے تینوں ادوار میں مُلک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کا زیادہ تر بجٹ اپنے اللے تللے میںلگایااور دل کھول کر آف شور کمپنیاں بنائی اور اَب جب قا نو ن کی گرفت میں آئے اور نااہل قرار دے کر نکالے گئے ہیں تو چیختے پھر رہیں کہ ” مجھے کیوں نکالا؟“ اور اَب” مجھے کیوں ہرایا؟“ اور اُوپر سے اپنی نااہلی اور ہارپر اسٹیبلشمنٹ اور اداروںکو مورودِ الزام ٹھیرا کراسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف محاذ آرا ئی پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اِس صورتِ حال میں بالخصوص نوازشریف ، شہباز شریف ، مریم نواز ،اور ن لیگ والوں کا اپنی سُبکی دور کرنے اور مٹانے کے لئے اپنا نعرہ” اِز نا لاءاِن آف کرپشن المُلک“ یعنی کہ مُلک میں لائ(قا نون )نہیں کرپشن محبوب ہے“ یہ بنا لیا ہے۔

بہر حال ، اِسے بھی ہمارے اہلیانِ سیاست کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بہت کم لوگوں میں حُسن سیرت کااتنا جوہر ہوتا ہے کہ وہ بڑی بولی پر بھی نہ بکیں“ ہاں سیاست کا ہر لمحہ نیا اوراور ہر نئے وقت کو ما ضی کا حصہ بنتے بھی دیر نہیں لگی ہے سیاست کا کلیہ اِس پربھی قا ئم ہے کہ آج کے دوست کل کے دُشمن اور کل کے دُشمن آج کے دوست بن جا نے میں بھی دیر نہیں لگتی ہے۔

ہمیںاِس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ سرزمینِ پاکستان میںایسے بہت سے مفروضے روزانہ قدم قدم پر سچ ہوتے اور حقیقت میں بدلتے نظر آتے ہیں جس کی ایک سادہ اور قریبی مثال عمران اور زرداری کا سینیٹ الیکشن میں اتحادی بننا ہما رے سا منے ہے جبکہ کچھ دِنوںپہلے تک اِن دونوں کی کثرت سے عوامی اجتماعات اور دیگر مقامات پر کی جا نے والی سیاسی زبان درازی بھی ہے جِسے ٹی وی چینلز پر سُن کر اور اِن کے ایک دوسرے کے خلاف دیئے جا نے والے بیانات اخبارات میں پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کے لئے جیسی زبانیں استعمال کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںاَب چاہئے کچھ بھی ہو جائے سورج مشرق کے بجا ئے مغرب نکلے اور آسمان زمین پر بھی آن پڑے توبھی یہ کبھی کسی نقطے پر ایک نہیں ہوں گے چونکہ سیاست میں ہرہفتہ ، ہر دن اور ہر گھنٹہ ایک نیا موڑ لئے ہو ئے آتا ہے سینٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے انتخاب میں نہ صرف سرزمینِ پاکستان کے باسیوں نے دیکھا بلکہ دنیا نے بھی جان لیا اور سمجھ لیا کہ سیاست مگر بالخصوص پاکستا نی سیاست میں کبھی بھی اور کہیں بھی کچھ بھی اَنہو نی ہوسکتی ہے ۔

تا ہم چیئر مین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں زرداری ، عمران کا اتحادکا میا ب ہوگیاجس کے بعدجہاں تاریخ میں پہلی بار ایوان بالا کی سربراہی بلوچستان کو مل گئی تو وہیں بلوچستان کے عوا م کی احساس محرومی بھی بڑی حد تک کم اور ختم ہو ئی ہے۔

اِدھر سینیٹ الیکشن کا تاریخ ساز نتیجہ آیا تو اُدھر ن لیگ ا ور اِس کے اتحادیوں کے چہرے اُترے تووہیں اُن کی زبا نیں بھی کا ن کترنے والی قینچی اور زہریلے نشتر سے زیادہ تیز چلنے لگی، سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے حاصل بزنجو نے کلیجہ چھیلتے جملوں اور اپنے سخت ترین لب ولہجے اور روندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ” آج ثابت ہوا بالادست قوتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں،ایوان کو منڈی بنا دیا، بھٹو، بے نظیر ،پارلیمنٹ ہارگئے ،ہاو ¿س کا منہ کالا کردیا،یہاں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے “مگر پھر بھی یہ اِسی ایوان میں آئیں گے بے شرم کی بات ہے کچھ تو حیاءہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے اور اِسی طرح محمود اچکزئی نے بھی مرچیں چبا نے والے انداز سے کہا کہ” صادق سنجرانی قبول نہیں،بلوچستان کے سینیٹ ارکان شفافیت سے منتخب نہیں ہوئے ،لیڈرایجاد کرنے کا تماشابند ہوچا ہئے اور ہم جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی آخری جنگ ہار گئے ہیں“ اورن لیگ کے نومنتخب صدر شہباز شریف نے کہا کہ” زرداری اور نیازی ایک ہو بھی جا ئیںتو ایک ہم سے بھا ری نہیں ہوسکتے ہیں“ شہزادی شریفاں(نوازشریف اور شہباز شریف) کی بیٹی اور بھتیجی مریم نواز نے صادق سنجرا نی اور سلیم ما نڈوی والا کی کامیا بیوں پر ٹوئٹ پیظام میں ا نتہائی جلے کٹے لہجے اظہار خیال کیا کہ” شطرنج کے مہرو! تم جیتے نہیں بدترین شکست ہو ئی ، زراعوام کے سا منے تو آو ¿، زرداری اور امپائر کی انگلی کا بیوپاری، تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے“اِسی طرح سینیٹ الیکشن میں بالترتیب مریم اورنگزیب، سعدرفیق اور طلال چوہدری نے بھی اپنے اپنے روایتی لب ولہجے سے عمران زرداری کے اتحاد کی جیت پر کھل کر زہر اگلا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔

آج زرداری و عمران اتحاد کی سینیٹ انتخاب میں کامیا بی پر الزام تراشیاں کرنے والے ن لیگ والے اپنا محاسبہ اور احتساب کریں اَب قبل اِس کے کہ اگلے متوقعہ عام انتخابات میں عوام اِن کا محاسبہ کرے ابھی موقع ہے کہ نواز شریف اور اِن کے حواری اداروں اور بالخصوص عدلیہ اور فوج و اسٹیپلشمنٹ کے کردار پر سوالیہ نشان لگا نے سے پہلے ما ضی میںبھی جھانکیں کہ اِن کی نرسری بھی تو فوج و اسٹیپلشمنٹ اور عدلیہ کے ہاتھوں پروان چڑھی ہے آج جویہ اتنے بڑے قدآوار درخت بن کر اپنے ہی محسنوں(اداروں) کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں سوچیں کہ آج یہ کس منہ سے یہ اداروں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں؟ اپنے لئے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھوتو نہ کریں۔

یہ کہنا اور سوچنا کسی حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے کہ سینیٹ انتخاب میں زرداری اور عمران کسی کے کہنے یا اشارے پرایک دوسرے کے قریب آئے ہوں مگر یہ بھی تو ما ننا ہی پڑے گا کہ سینیٹ الیکشن میں دونوں نشتوں سے ن لیگ کو پوری قوت سے ہرا نے کا عزم و اعلان کرنے والے پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے اپنے کئے کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے پی پی پی سے گٹھ جوڑکیا اور پھر زرداری عمران سا نجھے کی ہنڈیا صادق سنجرا نی اورسلیم مانڈوی والا کی آمیزش یا تڑکے سے تیار ہو گئی ہے اَب جس پر ن لیگ اور اِس کے اتحادیوں کی بددعائیں نما تنقیدجاری ہے یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ زرداری عمران سا نجھے کی ہنڈیا سنجرا نی چوراہے پر کب پھوٹتی ہے؟ ابھی ن لیگ کے سینٹ الیکشن کے بعدسینے میں لگی شکست کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو ئی ہے شائداَب یہ آگ اگلے پانچوں سالوں میںبھی ٹھنڈی نہ ہو مگر اتنا ہے کہ سینیٹ میں اتحادی جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی والوںکو آئندہ ن لیگ کی طرف سے اکثر معاملات پر با ئی کا ٹ اور واک آوٹ کرنے سے بہت معاملات میں ٹف ٹائم ملے گادیکھتے ہیں کہ اَب زرداری اور عمران اِس امتحان میں کتنے کا میاب ہوتے ہیں؟ اور اپنا اتحاد کب تک برقرار رکھ کر سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کو اِن کے عہدوں پر باہم متحد و منظم رہ کر قا ئم رکھ سکیں گے؟اور آ پس کے اختلافات اور سیاسی معاملات کو اپنی سیاسی بصارت و بصیرت ، آگاہی، مصالحت پسندی اور افہام و تفہیم سے کا م لیتے ہوئے عفووودرگزر سے نبھائیں گے؟۔

تو آئیں اِس کا انتظار ہم بھی کرتے ہیںاور آپ بھی کریں کیو نکہ مزاج اور سیاسی تدبر اور فہم وفراست میںزرداری اور عمران کی سوچوں اور فیصلوں میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر پھر بھی دُعا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو برداشت کریں اور آگے بڑھیںاور ن لیگ کے اِس خدشے اور خیال کو پوری قوت سے رد کردیں کے عمران اور زرداری زیادہ دیر تک ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com