تحریر : شیخ خالد زاہد حقیقت ہمیشہ سے ہی تلخ او ر کڑوی رہی ہے، جسکی وجہ سے کچھ بھی لکھتے ہوئے بہت سی تکالیف کا سامنا رہتا ہے ، مگر حقائق سے صرف اسلئے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں یا لکھنا ترک نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے یا اپنی بدنامی کا خوف رہتا ہے۔ اندرونی طورسے کشیدہ ہوتی صورتحال پر اکثریت خاموشی اختیار کئے رکھتی ہے اور جیسے ہی کوئی انکے احساسات کی زبان بنتا ہے تو پھر بس اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ہم اس انتظار میں ساری عمر بھی کھڑے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں کہ شائد خدا کوئی معجزہ کردے اور ہمارا دیرینا مسلۂ حل ہوجائے ۔زندہ مثال لے لیجئے نادرا نامی ادارے سے تقریباً ساری قوم ہی نالاں ہے مگر کوئی اس بات کیلئے آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا یا پھر کراچی الیکٹرک کی من مانیوں کے سامنے سب ڈھیر ہوئے پڑے تھے جماعت اسلامی نے اس دونوں مسائل کے حل کیلئے ناصرف آواز اٹھائی بلکہ ان معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ جماعت اسلامی نے اس مسلئے کو سیاسی یا مذہبی نہیں بنایا اور نا بنا کر پیش کیا انہوں نے عوام کی امنگوں کے عین مطابق ان مسائل کی جانب ارباب اختیار کی بھر پور توجہ دلائی اور اس توجہ دلانے میں کراچی کے شہریوں نے بھی سیاسی وابسطگیوں سے قطعہ نظر سڑکوں پر نکل کر جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دیا۔
آج دنیا میں موجود تمام مذاہب میں سب سے زیادہ زیر بحث اور زیرِ عتاب اسلام اور اسکے ماننے والے ہیں جنہیں مسلمان کہا جاتا ہے۔ ایسا ایک رات یا دن میں نہیں ہوا یہ تو طے شدہ طریقے سے ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسلام دنیا میں رائج وہ مذہب ہے جو سب سے آخیر میں نافذ العمل ہوا اور ایسا منظم ہوا کہ رہتی دنیا تک کیلئے اللہ رب العزت نے قائم ودائم کر دیا۔ ویسے تو ہر مذہب کا تعلق خدائے بزرگ و برتر سے ہے لیکن اسلام وہ مذہب ہے جسے خدانے مقبول اور پسندیدہ قرار دیا یعنی پیغمبر اسلام محمد ﷺ پر نبوت کے دروازے بند کردئیے ۔ یہ بات ان دیگر مذاہب پر عمل پیرا لوگوں کیلئے نا قابل ہضم ثابت ہوئی جو اسلام سے قبل دنیا میں رائج تھے۔ جبکہ قدرت نے ہر نئے مذہب یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر نبی علیہ اسلام کے مبعوث کئے جانے پر پرانا طریقہ عبادت موقوف کر دیا جاتا تھا اور کچھ اضافے یا کمی کے بعد نیا طریقہ اپنایا جاتا تھا ایسا شائد کبھی بھی نہیں ہوا ہوگا کہ تمام کے تمام موجود لوگ پرانا طریقہ ترک کر کے نئے طریقے پر چلنے لگے ہوں۔ میں کاعنصر تو انسان میں قدرت نے ہمیشہ سے ہی رکھاہے اور دنیا میں کسی بھی انسان کیلئے کسی بھی نئی چیز کو آسانی سے تسلیم کرلینا مشکل کام ٹہرتا ہے اور جب اپنے تخلیق کرنے والے پر سوال اٹھائے جا رہے ہوں اور اسکے صحیح یا غلط ہونے پر یقین متزلزل کیا جا رہا ہو تو ایسا مان لینا یا سمجھ لینا قطعی آسان کام نہیں ہوسکتا ۔ اسلام کی بالادستی نے دنیا میں تہلکہ مچایا تھا اور یہ تہلکہ رہتی دنیا تک مچا ہی رہے گا۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے دنیاوی آسائشوں کی دلدل میں گردن تک دھنسا دیا گیا ہے ۔ آج اگر زیادہ دور نہیں اپنے قرب و جوار میں دیکھیں تو ہماری تگ و دو ان آسائشوں کے حصول کیلئے ہی ہے۔اسلام کو بدنام کیا گیا یا پھر اسلام کے ماننے والوں اور اسکا دفاع کرنے والوں کی ناکامیوں کی وجہ تھی کہ آج ساری دنیا میں جتنی تذلیل مسلمانوں کی ہورہی ہے شائد ہی ماضی میں کسی اور مذہب کے ساتھ ایسا ناروا سلوک رکھا گیا ہوگا۔ اس بات کو ذہن میں رکھئے کہ ہم غاروں کے یا اندھیروں کے دور میں نہیں ہیں ہم ماڈرن ایج (جدید دور ) میں زندہ ہیں جہاں انسانیت ترقی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔
ہمارے یہاں شادیوں میں بہت ساری رسومات میں سے ایک رسم جوتا چھپائی کی بھی ہوتی ہے مگر جوتا مارنے کی کوئی باقاعدہ رسم ہمارے معاشرے میں رائج نہیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عمر کہ ایک حصے تک ہماری اور آپکی حرکات کی مرہون منت گاہے بگاہے ایک جوتا نہیں بلکہ ایک ہی جوتے سے تابڑ توڑ حملے اور وہ بھی بغیر کسی مزاحمت کی اجازت کے ، عمر کے جس حصے میں ایسے حادثے رونما ہوتے تھے وہاں عزت اور بے عزتی سے کہیں اہم مستقبل میں ان جوتوں کی برسات کو یاد کرکے ایسے کاموں سے قطعی اجتناب برتنے کی جانب رغبت بڑھانا رہا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں بہت ہی کم ایسے بچے خصوصی طور پر لڑکے ہونگے جنہیں جوتوں کی بارش میں نہانے کا اتفاق نہیں ہوا ہوگا ۔ ان جوتے کھانے والوں میں یقین سے تونہیں مگر کہہ رہا ہوں کہ بڑے ہوکر کبھی ایسی نوبت نہیں آئی ہو گی کہ کسی ایسے کام کی جرات ہوکہ جس کی وجہ سے جوتے کھانے پڑیں۔ مذکورہ گفتگو سے جو بات اخذ کی جانی چاہئے وہ یہ کہ جنہوں نے بچپن میں جوتے نہیں کھائے انہیں بڑے ہوکر کھانے پڑ رہے ہیں یعنی انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں تھی کہ کن کاموں کی وجہ سے جوتے کھانے پڑتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کا پاس رکھتے ہوئے جوتے مارنے والے اس انتظار میں دیر سے دیر کرتے رہے کہ اب سدھر جائے کے اب سدھر جائے، مگر جوتے کھائے بغیر سدھرنا ہمارے معاشرے میں مشکل کام ہے۔ جنہوں نے بچپن میں اپنے بڑوں سے جوتے کھا لئے تھے وہ اپنے بڑوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے چلیں اور ہماری اولاد ہمارا شکریہ کرلیں۔ (یہاں جوتے بطور اصطلاح استعمال کئے جا رہے ہیں)
گزشتہ دنوں تواتر سے دو ایسے واقعات جن میں ایک تو خواجہ آصف صاحب پر سیاہی پھینکنے کا ہے اور دوسرا میاں نواز شریف صاحب پر جامعہ نعیمیہ کے دورے پر جوتا پھیکنے کا ہے، رونما ہوئے جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام میں سیاسی حجان کس حد تک بڑھ رہا ہے ۔جوتے مارنے کے واقعات ساری دنیا میں ہوتے رہے ہیں جو ناپسندیدگی کی علامت سے مشابہ ہے ، یعنی آپکی حکومت چلانے کی حکمت عملی کے خلاف ایک اتنہائی غیر اخلاقی نفرت کے اظہار کا طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کیلئے یہ کوئی ایسے واقعات نہیں کہ جن کو لے کر کم از کم ہم من حیث القوم پریشان ہوجائیں کیونکہ کسی بھی بات پر شرمندگی کیلئے علم کا ہونا بہت ضروری ہے اور ہم تو لفظ علم سے ہی لاعلم ظاہر ہوتے ہیں(معذرت) ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ایک کرکے جوتامارنے والے واقعات جوکسی فرد کی انفرادی ذہنی اذیت کا اظہارکر رہے ہیں کب یہ عمل یعنی جوتے مارنے یا پھینکنے کا اجتماعی صورت اختیار کرے گا۔ قوم کو اس نہج تک پہنچانے میں ان جوتا کھانے والے لوگوں کا ہی ہاتھ ہے۔
اب فرق صرف اتنا ہے کہ جوتا مارنے والا انا کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اس غریب کا پتہ بھی نہیں چلے گا، جبکہ پوچھنا تو ان سے (جوتا کھانے والے) چاہئے کہ محترم کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو جوتا کیوں مارا گیا ہے۔ اسلام کی تربیت اور اس پر عمل کرنے والے حقیقی لوگوں میں سے ایک حضرت علیؓ کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب آپؓ دشمن کے سینے پر بیٹھ گئے اور قریب تھا کہ اسے واصل جہنم کرتے اس نے آپؓ کے منہ مبارک پر تھوک پھینکا جس پر حضرت علیؓ فوراً اسکے اوپر سے اترے اور اس کی جان بخش دی پھر اس سے پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیا تو اس کافر نے کیا خوب جواب دیا کہ میں جانتا تھا کہ آپؓ مجھے ااسلام کیلئے تو قتل کرنے سے نہیں رکینگے مگر میرے اس عمل سے جو کہ آپؓ کی ذاتی انا کا مسلۂ بن جائے گا اور آپؓ ذاتی تسکین کیلئے مجھے کبھی قتل نہیں کرینگے (اللہ تعالی کمی بیشی معاف فرمائے، آمین)۔ ہماری محترم سیاسی بہن مریم نواز نے جن مثالوں کا تذکرہ عوام کے سامنے کیا ہے وہ قطعی قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ جب آپ اور آپکے اہل خانہ انصاف نہیں کرسکتے اور نا مانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جھوٹ پر جھوٹ بولے جاتے ہیں تو پھر آپ لوگ اپنے ناپاک زبان سے پیارے آقا محمد ﷺ اورفاطمہ الزہرہؓ کی مثالیں کیسے دے سکتی ہیں۔ اس وقت سے ڈرئیے اور بچنے کے صد باب کیجئے جب یہ قوم آپکو ایک ایک جوتا نہیں بلکہ اجتماعی جوتے برسانے نکل کھڑی ہوجائے گی۔ اپنے کئے کی ناصرف اللہ رب العزت سے معافی مانگیں بلکہ اس عوام سے بھی معافی طلب کریں ۔ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے یہ آپ کے لہجوں سے جھلکنا شروع ہوگیا ہے ۔ مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے کہ ایک فرد کی حیجانی کیفیت نے اس سے ملک کی معزز ترین ہستی پر جوتا پھینکنے کی نوبت تک پہنچا دیا اگر یہ کیفیت اس پورے مجمع کی ہوگئی جو آئے دن سڑکوں پر رلتا پھرتا ہے تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا کیا بنے گا۔ یہ صرف نواز شریف یا انکی سیاسی جماعت کا مسلۂ نہیں ہے پھر یہ قوم نا عمران خان کو دیکھے گی ، نا زرداری صاحب کو اور نا ہی کسی اور سیاستدان کو برداشت کرے گی کیونکہ اب بطور قوم ہم سیاستدانوں سے بدظن ہونے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ۔ اب پاکستانی قوم مذہبی انتہاء پسندی سے بہت آگے نکل چکی ہے اور سیاسی انتہا پسندی کی جانب بڑھتی محسوس ہو رہی ہے ۔خدارا اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت لاج رکھئیے ، دوقومی نظرئے پر دھیان رکھئے ،شائد دنیا کے تمام ممالک پاکستان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اب امت کی تشکیل و تنظیم پاکستان سے ہو گی۔