تحریر : چوہدری غلام غوث راقم اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سکول چھوڑنے کے لیے اپنی موٹر سائیکل نکالتا تو ایک منظر کم و بیش روزانہ دیکھنے کو ملتا جس میں 8/10 سال کے بچے کو اور کبھی ہم عمر دو بچوں کو دیکھتا جو عین اُسی وقت کوڑا ڈالنے والے ڈرم کے ارد گرد چکر لگا رہے ہوتے،اُس میں سے کاغذ اور گتے چن رہے ہوتے اور ان کے ہاتھ میں قد سے دوگنی بوری ہوتی جس میں کاغذات چُن کر ڈال رہے ہوتے، میں کبھی اپنے بچے کی طرف دیکھتا اور کبھی میل کچیل سے اٹے اُن خوبصورت بچوں کی طرف دیکھتا اور سوچتا کہ ان میں اور میرے بچے میں کیا فرق ہے تو مجھے فرق صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان بچوں کے پاس کاغذ تو ہیں مگر ان کو سنبھالنے کے لیے بستے کی بجائے بوری ہے اور جب تک یہ بوری کاغذوں سے بھر نہ جائے ان بچوں کا پیٹ خالی رہتا ہے ۔ مجھے یہ اندیشہ بھی لاحق رہتا کہ اس قسم کے کوڑے کرکٹ میں کانچ کے ٹکڑے ، استعمال شُدہ بلیڈ اور دیگر خطرناک اشیاء بھی موجود ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان معصوم بچوں کے پھولوں جیسے نرم و نازک ہاتھ زخمی بھی ہو سکتے ہیں۔مگر پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر میں دُھن کے پکے ، من کے سچے یہ بچے خطرات سے آزاد نظر آتے۔
ایک روز ہمت باندھ کر راقم نے اُن بچوں سے پوچھ لیا کہ آپ لوگ سکول نہیں جاتے؟ تو ایک بچے نے انتہائی معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ ہم تو روزانہ سکول جاتے ہیں میں حیرت زدہ ہوا دوسرا سوال کر دیا بیٹے میں تو روزانہ اس وقت آپ کو کوڑے کے ڈرم کے گرد گھومتے دیکھتا ہوں سکول کس وقت جاتے ہو تو اب دوسرے بچے نے جواب دیا چچا جی جب ہر روز سکول سے بچوں کو چھٹی ہو جاتی ہے تو ہم وہاں پر ردی کے کاغذ اکٹھے کرنے جاتے ہیں جو سکول کے بچے باہر پھینک دیتے ہیں میں نے سوچا ان بچوں کا کاغذ سے تعلق تو ضر ور ہے مگر پڑھنے لکھنے والا نہیں بلکہ روزی روٹی کمانے والا تعلق ہے اس عمر میں تو بچے اٹھکیلیاں کرتے سکول جاتے اچھے لگتے ہیں اور یہ سوچ میرا سارادھیان اُس واقعہ کی طرف لے گئی جو واقعہ سالوں پہلے میں نے ملک کے ایک نامور صحافی کی کتاب میں پڑھا تھا اور میرے دماغ کے ایک خانے میں چپک کر رہ گیا تھا۔ کہانی کے مطابق مجھے وہ ریٹائرڈ بزرگ کلرک عبداللہ یاد آ گئے جو دھرم پورہ لاہور میںریلوے لائن کے قریب رہتے تھے۔
دفتر سے واپسی پر کاغذ چُننے والے بچوں کو جمع کرتے اُنہیں الف۔ب۔پ۔ایک۔دو۔تین سکھاتے اور سہہ پہر کے وقت اُن کے گھر کے دروازے کے باہر کاغذ چُننے والے بچوں کے تھیلے اور گٹھڑیاں پڑی ہوتیں اور پچیس تیس بچے اُن کی بیٹھک میں جہاں دری بچھی ہوتی اس پر بیٹھ کر الف انار، ب بکری پڑھ رہے ہوتے اور یہ بیٹھک نما سکول روزانہ 4 بجے کے قریب کھُل جاتا اور بچے آنا شروع ہو جاتے سب سے پہلے ٹوٹی سے وضو کرتے نماز پڑھتے گھر میں جو پکا ہوتا وہ کھانا کھاتے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پڑھتے اور پھر اپنے تھیلے اُٹھا کر چلے جاتے یہ دُنیا کا واحد سکول تھا جس میں حاضری کا رجسٹر نہیں تھا اس کے باوجود جس بچے نے ایک بار اس دہلیز پر قدم رکھا وہ اس مادرِ علمی کا ہی ہو کر رہ گیا ان حضرت صاحب کا اس عمل میں خلوص اس حد تک ہوتا جس کا اظہار برملا ان کے نورانی چہرے سے ہو جاتا ان دونوں میاں بیوی کی محنت کا یہ ثمر اتنی جلدی بارآور ثابت ہوا کہ اس سکول کی کئی ایک برانچیں کھُل گئیں۔ حضرت صاحب کلاس میں سے دو تین بچوں کا انتخاب کرتے جب وہ اُن کے معیار کے مطابق تیار ہو جاتے تو اُن کو اپنے پاس بٹھا کر دو تین گھنٹے کا لیکچر دیتے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور میٹھی آواز میں کہتے بیٹا جاؤ اور اپنے جیسے دوسرے بچوں کو یہ سب کُچھ سکھا دو ، وہ بچے اُٹھتے اور روشنی کا یہ علم لے کر کسی گندے نالے، کسی جوہڑ کے کنارے، پُرانے کاغذوں کے کسی گودام کے باہر، کسی ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے کسی بدبودار ماحول والی کچی بستی کے وسط میں جاکر سکول کی برانچ کھول لیتے۔ یہ دُنیا کا واحد ادارہ تھا جس میں پورے سکول کے لیے ایک کتاب کافی سمجھی جاتی تھی یہ بچے کانے یا چھڑی کے ٹکڑے کی قلم بناتے زمین کو سلیٹ اور یہ قلم اِنہیں روشنی کی نہ ختم ہونے والی وادی میں لے جاتی۔
یہ کلرک بابا جی کسی سے ایک روپیہ قبول نہیں کرتے تھے اپنی محدود سی آمدنی سے بچوں کو کھانا بھی کھلاتے اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر بھی پلاتے ، بچوں کو پانی پلانے کے لیے گھڑا رکھا ہوتا اس کا پانی ٹھنڈا بھی ہوتا میٹھا بھی اور علم کی پیاس لے کر آنے والے نونہالانِ قوم جی بھر کر اپنی پیاس بجھاتے۔حضرت اُن بچوںسے بے حد پیار کرتے اپنے سکول کے انتظام و انصرام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے کہ نیچے بچھی دری دو تین سال نکال جاتی ہے اتنے عرصہ میں میری اہلیہ نئی دری تیار کر لیتی ہے اور ہم اس کی جگہ وہ بچھا لیتے ہیں چھت پر پنکھا لگا ہوا ہے کتابوں کی ہمیں ضرورت نہیں۔ایک کتاب دو تین سال نکال جاتی ہے لکھنے کے لیے اکثر پنسلیں بچوں کو کوڑے سے مل جاتی ہیں بچوں کی دال روٹی اور چائے کے لیے میری تنخواہ کافی ہے۔ پانی کے لیے سرکاری نلکا کام آ جاتا ہے لہذا اس کام کو کرکے ہم اللہ کے فضل و کرم سے بہت سُکھی اور خوش ہیں۔
کسی سے نذرانہ یا ہدیہ نہیں لیتے کیونکہ اللہ کو اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ پسند ہے اور لینے والا ہاتھ اللہ کا نہیں ہوتا بابا جی کا نظریہ یہ تھا کہ جس دن میرا یہ ہاتھ دُنیا داروں کے سامنے پھیل گیا اُس دن یہ ہاتھ اللہ کا ہاتھ نہیں رہے گا اور سخاوت روپے پیسے ، مال و زر کی محتاج نہیں ہوتی یہ صرف جذبے کی محتاج ہوتی ہے اور یہ جذبہ فطرتِ خداوندی سے عود کر انسان میں آتا ہے۔آج بھی ہزاروں پڑھے لکھے ریٹائرڈ صحت مند اور کثیر پنشن یافتہ افراد معاشرے میں موجود ہیں وہ اگر اس بات کا تہیہ کر لیں کہ معاشرے کے بے بس، بے کس، بدحال طبقے کے محنت کش معصوم بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اُن کی محرومی کے اندھیرے کو تعلیم کی روشنی سے دور کرنا ہے تو اُن کے لیے اس بزرگ کلرک کی مثال آخرت کا توشہ بن کر سامنے کھڑی ہے کون کون درد رکھنے والے اسے اپناتے ہیں یہ تو اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔
قارئین! آج بھی ہم انسانیت کی خدمت کا جذبہ خلوص دل سے لے کر نکلیں تو کامیابی ہماری راہ میں آنکھیں بچھا دے اللہ کی مدد و نصرت قطار اندر قطار آسمانوں سے نازل ہونی شروع ہو جائے شاید یہی کمزوری ہماری تمام مشکلات کی جڑ ہے سوچ یہ ہو کہ مال و زر نہیں خلوصِ نیت اور نیک جذبہ سب کُچھ ہے تو پھر آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا؟