تحریر : قادر خان یوسف زئی سینیٹ انتخابات اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئے۔ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کا مرحلہ بھی بخیر خوبی اختتام پزیر ہوا ۔ سینیٹ انتخابات ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین قرار پائے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کھل کر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ اب متوقع نتائج پر تجزیوں، الزامات، بیانات اپنے عروج پر ہیں ۔ راقم اپنے گزشتہ کالم میں اظہار کرچکا تھا کہ بلوچستان احساس محرومی کی اُس منزل تک جا پہنچا ہے کہ اگر سینیٹ چیئرمین شپ سے زیادہ بھی دینا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔تاہم صوبائی حکومت کی تبدیلی سے لیکر پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کو انتخابی نشان سے محرومی تک ، سندھ ،فاٹا اور خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کی روش پر ذاتی طور پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس طرح کے عوامل سے عوام کا اپنی سیاسی جماعتوں و اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ چونکہ پاکستان میں جمہوری پارلیمان نظام قائم ہے اور جمہوریت کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اکثریت کی رائے مقدم ہوتی ہے۔ اس لئے سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو ایوان کی اکثریت نے منتخب کیا ہے۔ جمہوری نظام کے اس اہم اصول کے حوالے سے اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جانا ضروری ہوتا ہے ۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اکثریت کے اس فیصلے کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہاں ایسا کوئی کلیہ قابل تسلیم نہیں کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز کامیاب ہوجاتی تو وہی قابل قبول ہوگا ۔ ہم جانتے ہیںکسی کے پاس سینیٹر بننے کے لئے اہلیت نہیں ہوتی لیکن وہ پھر بھی سینیٹر بن جاتا ہے۔ کسی جماعت کے رکن نے کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا تو دھڑلے سے میڈیا کے سامنے اقرار بھی کرلیتے ہیں۔ سیاسی توڑ جوڑ بر سرعام ہوتے ہیں ۔ اس لئے اب نتائج پر واویلا کرنا فضول ہے کہ چمک نے اپنا کام دکھایا یا پھر ہارس ٹریڈنگ کی بدترین روایت قائم ہوئی ۔خفیہ مردم شماری میں ضمیر کی کتنی قیمت لگی ، سیاسی توڑ جوڑ میں کس اتحادی نے دھوکہ دیا ، یہ سب جاننا فضول اس لئے ہے کہ جمہوری نظام میں یہ حُسن کہلاتا ہے ۔ اختلاف رائے کا حق مسلمہ نہیںرہا بلکہ بندوں کو گِناجانا ضروری ہے۔ تولنے کے لئے ضمیر کی قیمت دینے والا ہونا لازم ہے۔جب جمہوری نظام اپنایا گیاہے تو اس کی تمام تر خامیوں کو بھی اپنانا ہوگا ۔ میکاولے کے متعین اصولوں پر اس نظام میں نمبروں کی طاقت کو ہی حاکمیت کا منبٰی تسلیم کرنا ہوگا۔ حاکم اعلیٰ او حق حاکمیت رب کائنات کو ہے لیکن اللہ کی زمین پر جب اللہ کا دیا نظام ( قرآن) نافذ نہیں ہوگا تو دنیاوی نظام ہائے حکومت میں بے ضمیری ،خرید و فروخت اور نمبرنگ گیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے ۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے مسلسل زک لگائی جا رہی ہے ۔ سینیٹ کے آئینی عہدے کے لئے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کئے ، یہی معاملات حکومتی جماعت بھی کررہی تھی ، اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مقابلہ تھا اس لئے اپوزیشن اتحاد نے ٹینڈرمیں کامیابی حاصل کرلی۔ آزاد امیدوار چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے ۔ انہیں جمہوریت بہترین انتقام کے دنگل میں بڑی کامیابی پر مبارکباد دینا تمام سیاسی جماعتوں کا حق بنتا ہے ۔ یہ حق فرض بھی اس لئے بن جاتا ہے کہ جب ہم مملکت کی وزرات اعظمیٰ کے لئے ایسے وزیر اعظم قبول کرسکتے ہیں جن کے شناختی کارڈ بھی نہیں تھے اور انہیںوزارت اعظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل پاکستانی بننا پڑا تھا ۔ تو جب ایسے دو وزیر اعظم پاکستان کے مسند اقتدار پر بیٹھ سکتے ہیں تو ایسی کون سی قیامت آگئی کہ کوئی آزاد امیدوار سینیٹ کا چیئرمین بن گیا کم ازکم پاکستانی تو ہے ۔ ویسے بھی سینیٹ کے چیئرمین تو دونوں بڑی جماعتوں کے لئے پہلے ہی سے قابل قبول رہے ہیں ۔1998میں میاں نواز شریف کے کوآرڈی نیٹر جبکہ یوسف رضا گیلانی کے بھی کو آرڈی نیٹر رہ چکے تھے اور پانچ برس اس منصب پر فائز تھے۔ تو اس سے پہلے کونسا دربار کہاں اور کس نے لگایا تھا یہ کیوں نہیں بتایا جاتا ۔ میر حاصل بزنجو کی جانب سے تنقید میں ریاست کے عسکری ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے عمل میں جوش جذبات میں ان کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا گیا وہ شکست کے اثرات سے مغلوب تھا ۔ اس کا جواب تو وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دے ہی دیا ہے کہ پہلے وہ اپنی پوزیشن واضح کریں کہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے سینیٹ میں کس طرح کامیاب ہوئے۔
یپاکستان مسلم لیگ ن کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے کہ وفاق کا عہدہ ، پنجاب کا تخت لاہوراور سینیٹ کا آئینی سب سے بڑا عہدہ ، اپنی جماعت میں تاحیات قائد کا عہدہ اور پھر خاندان ہی میں سے جماعت کا صدر منتخب کروانے کا خبط ان کی سیاست کا محور کیوں ہے۔بات صرف مجھے کیوں نکالا، تجھے کیوں نکالا کے بیانیہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اُس سوچ کو درست کرنے کی ضرورت ہے جو جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں نے اختیار کررکھی ہے۔عوام کو برین واش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ عوام کے لئے ان تمام حالات میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے کافی مواد جمع ہوچکا ہے۔ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی اور عدلیہ مخالف تقاریر کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ اخلاقی دائرے بھی ضروری ہیں۔ عوام نے کسی امیدوار کو اس لئے نہیں منتخب کیا تھا کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی سے بغاوت و اداروں سے لڑتا پھرے۔ ضمیر کی فروخت کرتا رہے ۔ سیاسی توڑ جوڑ میں ماضی میںالزامات کی بوچھاڑ کو بوری میں بند کرکے سمندر میں پھینک دے۔
عجیب طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ کبھی کوئی خود کومظلوم تو دوسروں مخالفین کو ظالم بنا دیا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مثالیں دیتے ہوئے حضرت محمد ۖ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ سے نعوذ باللہ اپنی گناہ گار ذات کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ حد ہوتی ہے ۔ مجھے کراہت آتی ہے ایسے لوگوں سے جو اپنے فروعی مفادات کو مقدس ہستیوں سے جوڑ دیتے ہیں۔ مقدس ترین ہستیوں کی مثالیں تو پیش کرنے والوں کی اپنی عملی زندگی تعفن زدہ ہے۔ اپنے حلف کو توڑنے والے کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات تو نہیں کہ بدل نہ سکیں۔ اللہ کے لئے پہلے خود تو عمل کریں تاکہ اس کے اثرات عوام کے دلوںمیں اتر سکیں ۔قوم و فعل کے تضادات نے قوم کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ اب اور کتنے حصے بخرے کرنے ہیں۔قیام ِ پاکستان سے لیکر آج تک وطن عزیز کو مختلف تجربات سے مسلسل گزرا جارہا ہے۔ ایک کھلونا بنا دیا ہے ۔ جس کی مرضی ہو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اُسے چابی دے دیتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اپنے نکتہ نظر کے حوالے سے غور فکر کی ضرورت ہے۔ انہیں اور عوام کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ 350سے زاید الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی یہ بھیڑ کیا کررہی ہے۔ مخالفین کے مجموعی ووٹرز کی تعداد جیتنے والے اسمبلی کے امیدوار سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی کم ووٹ لینے والا کامیاب کیوں قرار پاتا ہے ۔سینکڑوں نمائندوں نے قوم و ملک کے لئے قانون سازی کی یا پھر فرد واحد کے لئے ۔ کبھی آمریت کے لبادے میں ، تو کبھی مورثی سیاست کے لباس میں آمر بن کر فروعی مفادات کو ترجیح دی ۔ سوال در سوال موجود ہیں لیکن کسی بھی سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ وہ اپنے جواب کو حرف آخر سمجھتا ہے۔عدم برداشت ، تنقید، طنز اور منا فقانہ طرز عمل معاشرتی و اخلاقی اقدار کو دیمک بن کر کھوکھلا کررہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی عوام بددلی کی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اُن کا اب کسی بھی ادارے یا فرد و جماعت پر اعتماد کم ہورہا ہے جو خطرناک رجحان ہے۔ اس لئے گذارش ہے کہ فرصت ملے تو اپنا گریبان بھی دیکھ۔