تحریر : پروفیسر رفعت مظہر مبارک ہو! سازش جیت گئی اور جمہوریت ہار گئی۔ مبارک ہو! بالآخر امپائر کی انگلی کھڑی ہو گئی۔ مبارک ہو! اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے نعرے لگانے والا زور آوروں کے دَر پہ سجدہ ریز ہوگیا۔ سچ کہا میاں نوازشریف نے ” بلاول ہاؤس اور بنی گالہ چابی والے کھلونے ہیں۔ کوئٹہ کا کیا شخص تھاجس کے سامنے سب سجدہ ریز ہو گئے”۔ مبارک ہو! تمام سیاسی جماعتیں ہار گئیں اور ایک ایسا شخص چیئرمین سینٹ بن گیا جس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مبارک ہو! کپتان نے اُس شخص سے ہاتھ ملا لیا جس کے خلاف وہ 10 مارچ تک آگ اُگلتا رہا۔ سوال مگر یہ کہ پیپلزپارٹی کے پاس تو پھر بھی اشک شوئی کے لیے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی سیٹ موجود ہے لیکن کپتان کے ہاتھ کیا آیاسوائے ”یوٹرن” کے؟۔ یو ٹرن بھی ایسا کہ جو کپتان کے سارے ”نظریے” پر خطِ تنسیخ پھیر گیا۔ مبارک ہو! کپتان امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کے فَن میں طاق ہوگیاحالانکہ اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ میاں نوازشریف امپائر کو ساتھ ملائے بغیر کھیل ہی نہیں سکتا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ امپائر کی انگلی کا صرف کپتان کو ہی انتظار رہتا ہے۔ مبارک ہو !سونامیوں کواُس ”نئے پاکستان ” کا چہرہ نظر آگیا جس کی تگ ودَو اُن کا لیڈر کر رہا ہے۔
مبارک ہو! آصف زرداری کو ”لُٹّو تے پھُٹّو” کی ایک دفعہ پھر اُمید بندھ چلی۔مبارک ہو! چودھری برادران کے چہروں پر بھی رونق آگئی۔ مبارک ہو! مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے سینٹ کے ووٹ اتحادیوں پر نثار کر دیئے اور وہ بھی مفت، یقیناََ تاریخ اِسے مولانا کا بہت بڑا ایثار لکھے گی (ویسے آخری خبریں آنے تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ مولانا کے ”اصل اتحادی” کون ہیں)۔ مبارک ہو! قومی سیاست ذاتی بغض، عناد، کینے اور نفرت میں ڈھل چکی۔ مبارک ہو! بزعمِ خویش رَہنمایانِ پاکستان” اوّل خویش ،بعد درویش” پر عمل پیرا ہو چکے۔ مبارک ہو! رَہنماؤں کی طرف جوتے اُچھالے جانے لگے، پہلے خواجہ آصف اور احسن اقبال، پھر میاں نوازشریف اور اب (13 مارچ) عمران خاںبھی جوتوں کی زَد میں آگئے۔ کپتان تو کہتے تھے کہ اگر کوئی جوتا اُن کی طرف آیا تو اُسے بڑی خوبصورتی سے کَیچ کر لیں گے لیکن عملی طور پر ایسا ہوا نہیں البتہ مارنے والے کا نشانہ ضرور خطا گیااور جوتا ساتھ کھڑے علیم خاں کے سینے پر ”ٹھاہ” کرکے جا لگا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ”پیرنی” کی دعاؤں کا اثر ہے جو جوتے نے اپنا رُخ بدل لیا اور یہ بھی یقین کہ یہ سلسلہ اب رُکنے والا نہیں۔اِس لیے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ”کاؤنٹر ٹیررازم فورس”کے ساتھ ساتھ ”جوتا مخالف فورس” کا قیام بھی عمل میں لایا جائے۔ ایسا کرنے سے اقوامِ عالم میںملک وقوم کا نام بھی روشن ہوگا اور امریکہ کا ”ڈومور” کا مطالبہ بھی ختم ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ سیاست میں اِس غلاظت کا ذمہ دار کون ؟۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سیاست میں غیرشائستہ رویوں ، غیرپارلیمانی زبان اور گالی گلوچ کی ابتداء اوائل 2012ء سے ہوئی۔ یہ وہی دَور ہے جب عمران خاں اپنی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور گلی گلی میں ”سونامی” کا شور تھا۔ تب طاقت کے نشے میں چُور کپتان نے غیرپارلیمانی زبان کا استعمال شروع کیا اور پھر 2013ء کا انتخاب ہارنے کے بعد اِس میں شدت آتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، عمران خاں کے کہے گئے غیرپارلیمانی الفاظ بتدریج دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی سرایت کرتے گئے اور نوبت جوتوں تک آن پہنچی جس کا اگلا مرحلہ انارکی ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کپتان کے نئے پاکستان کا خواب یہی ہے تو ہم اِس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کیونکہ یہ نہ تو اقبال کا خواب تھا اور نہ ہی قائدِ اعظم کی کاوشوں کا ثمر۔ کپتان کے نئے پاکستان کا تصّور ہرگز وہ نہیں جس کے حصول کی خاطر ہزاروں عفت مآب بہنوں ،بیٹیوںکی عصمتیں لُٹیں، ماؤں کی کوکھ اُجڑی، سہاگنوں کے سہاگ اُجڑے اور نومولود سے لے کر اَسّی سالہ بوڑھوں تک لاکھوں شہید ہوئے۔صد حیف کہ اب یہاں سیاست نہیں کثافت ہی کثافت ہے ۔۔۔۔ صرف کثافت۔ ایک دوسرے سے شدید ترین نفرت کرنے والے آصف زرداری اور عمران خاں محض اِس لیے بانہوں میں بانہیں ڈال لیتے ہیں کہ نوازشریف کو شکست سے دوچار کرنا مقصود تھا۔ آصف زرداری تو اُس وقت سے میاں نوازشریف کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے جب اُنہوں نے زورآوروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کی اور میاں صاحب نے پتہ نہیں کِس مصلحت کے تحت آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ آصف زرداری اب تک وہ دُکھ نہیں بھولے ،اِسی لیے وہ شریف خاندان کو زَک پہنچانا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ کپتان کو 2013ء کے انتخابات میںبُری ہزیمت نہیں بھولتی کیونکہ اُنہیں وزیرِاعظم پاکستان بن جانے کا اتنا یقین تھا کہ وہ اپنے بیٹوں تک کو کہہ آئے تھے کہ اب اُن سے اگلی ملاقات ”بطور وزیرِاعظم” ہوگی۔ اِس ہزیمت کا دُکھ کپتان کی شخصیت کا جزوِ لاینفک بَن چکا ہے۔
نوازلیگ کی حکومت کے خلاف ”زورآوروں” کی سازش تو 2013ء کا انتخاب جیتنے کے فوراََ بعد ہی شروع ہو چکی تھی لیکن اُن کی حکومت گرانے کی ہر کوشش ناکام ہوتی رہی۔ 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں ”کزنز” کے دھرنے پر تقریباََ سبھی تجزیہ نگاروں کو یقین ہو چلا تھا کہ حکومت کے جانے کا وقت قریب آن لگا۔ پھر ”پاناما” کا غلغلہ اُٹھا اوراور بالآخر ایک اقامے کو بنیاد بنا کر میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ تب بھی عام خیال یہی تھا کہ نوازلیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکاجس کی واحد وجہ میاں نوازشریف کا ڈَٹ کر کھڑے ہو جانا تھی ۔ شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم بنے اور نوازلیگ کی حکومت ایک دفعہ پھر رواں دواں ہوگئی۔ یہ صورتِ حال سازشیوں کو ہرگِز قبول نہ تھی اِس لیے نئی سازشوں کے تانے بانے بُنے جانے لگے ۔ اب کی بار سازشوں کے لیے بلوچستان کا انتخاب ہوا اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ پہلے بلوچستان کی منتخب حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار کا ہُما اُس شخص کے سر پر بٹھادیا گیا جو 22کروڑ والی آبادی کے پاکستان میں صرف 500 ووٹ لے کر منتخب ہوا۔ پھر زورآوروں کی کاریگری سے سینٹ کے 8 آزاد ارکان منتخب کروائے گئے اورپیسے کے زور پر فاٹا کے 4 آزاد ارکان کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ خیبرپختونخوا میں زرداری واقعی سب پہ بھاری پڑا ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میںپیپلزپارٹی کے محض 3 ارکان تھے اِس کے باوجودزرداری سینٹ کی 2 سیٹیں لے اُڑا حالانکہ سینٹ کے2 ارکان کو منتخب کروانے کے لیے صوبائی اسمبلی کے 34 ارکان کی حمایت درکار تھی۔ تب کپتان پیپلزپارٹی پر خوب گرجے برسے۔ اُنہوں نے بَرملا کہا کہ اُن کے ارکان بِکے،اورہر رُکن کی بولی 4 کروڑ روپے لگی۔ کپتان نے ”ضمیرفروشوں” کی تلاش کے لیے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم کی اور شنید ہے کہ پرویز خٹک نے ”بکاؤ مال” کی نشاندہی بھی کر دی لیکن پھر اسباب پڑے یوں کہ کپتان کو آصف زرداری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا پڑا، شاید ”امپائر” کا اشارہ ہوکیونکہ امپائر کی اجازت کے بغیر تو وہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے۔