تحریر: صادق مصطفوی دنیا میں سیاست ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور آئے دن اس میں اس تیز رفتاری سے ترقی ہو رہی ہے کہ اس کی داؤ و پیچ سمجھنے کیلئے انسان کوبھی اس کی سپیڈ کے ساتھ چلنا پڑھتا ہے۔ دنیا بھر کے مختلف میدانوں میں سے یہ ایک ایسی سائنس ہے جس پر کام کرنے والے سیاسی سائنسدان زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی سائنس کی بات کریں تو اس میں عوام خود بھی کچھ سمجھنے کی فکر میں نہیں ہوتی بلکہ اس کو انجوائے کرنے کی حد تک ہی دلچسپی لیتی ہے۔ اس سائنس کی ایک جھلک ہم اس تحریر میں دیکھتے ہیں۔
آزاد امیدوار کے طور پر سینٹ کے ممبر بننے والے صادق سنجرانی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے چیئرمین کیلئے متفقہ امیدوار تھے جو کہ 57 ووٹ لے کر سینٹ کے چیئر مین منتخب ہوئے ۔ بلوچستان کے صوبہ سے سینٹ چیئر مین منتخب ہونا ایک اچھا قدم ہے۔ قدرتی ذخائر سے مالا مال یہ صوبہ ہمیشہ سیاست کی نظر ہوتا رہا ۔ جس میں انڈیا کا عمل دخل بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ صادق سنجرانی کے سیاسی کیریئر کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ وہ 1998میں وزیر اعظم نواز شریف کی سیکرٹریٹ ٹیم کے کوآرڈینیٹر مقرر کیے گئے جو کہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے حکومت ٹیک اوور کرنے تک رہے ۔ اور جیسے ہی پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو سال 2008میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے شکایات سیل کے انچارج مقرر ہوئے ۔ اور اس عہدے پر 2013تک رہے۔الیکشن 2013میں دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے پر بلوچستان کے وزیر اعلی ثناء اللہ خان زہری کےSpecial Assistant مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی باقی فیملی میں سے بھی کچھ افراد مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
جب جنوری 2018میں آصف علی زرداری نے حکمران جماعت پر دباؤ ڈالنے کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف رخ کیا تو عمران خان کوبھی شہدائے ماڈل ٹاؤن یاد آئے اور وہ بھی دوڑے دوڑے ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس جا پہنچے۔ جب ان 3جماعتوں کو اکٹھا ہوتا دیکھا تو پاکستان مسلم لیگ ن نے آصف علی زرداری سے بیک ڈور رابطے شروع کیے اور سینٹ اور جنرل الیکشن الیکشن کے معاملات طے ہونے لگے اور جب مک مکا مکمل ہوا تو 17جنوری 2018کو ڈاکٹر طاہرالقادری کو مال روڈ لاہور پر چھوڑ کر آ صف علی زرداری چلتے بنے۔ اور عمران خان تو آئے ہی آصف علی زرداری کو دیکھ کر تھے۔ تو وہ بھی بنی گالہ کو نئی دلہن کیلئے سجانے میں مصروف ہو گئے۔
صادق سنجرانی کی پاکستان مسلم لیگ ن سے وابستگی دیکھنے کے بعد یہ کہنا کہ وہ آزاد امیدور ہیں۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ صرف آزاد ٹکٹ پر منتخب ہونے سے آزاد ہونا نہیں ہوتا۔ صادق سنجرانی پرآزاد امیدوار کا ٹائٹل لگا کر تحریک انصاف کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کے اس اصل امیدورا پر حمایت تھی ، جس کے بدلے میں ڈپٹی چیئر مین اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی کوشش میں بھی ایسے ہی نتائج نظر آتے ہیں۔اور اس طرح تحریک انصاف سینٹ میں ہاتھ ملتے رہ گئی۔ یہ ہی تو سیاست کی سائنس ہے۔
اس کرپٹ نظام نے سیاست کو ایک بزنس بنا دیا ہے اور اس سیاسی کاروبار کے تحفظ کیلئے سیاسی سائنسدان ایک ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی صرف اپنی دوکان چمکانے کیلئے ہوتی ہے ۔ جماعت اسلامی ایک طرف پانامہ کا نعرہ لے کر ملک بھر میں نواز شریف کے خلاف جلسے کرتی ہے اور دوسری طرف اسی مسلم لیگ کو سینٹ میں جتوانے کیلئے اس کو ووٹ بھی دے رہی ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اگرابھی بھی عمران خان الیکشن 2018 سے امید لگائے وزارت عظمی کی کرسی پر اپنے آپ کو بیٹھا دیکھ رہے ہیں تو ان کا یہ خواب اس نظام میں توپورا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔