پاکستان کی سلامتی

Pakistan

Pakistan

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

آج سے 78 سال پہلے 23 مارچ 1940 ء کو لاہور مینار پاکستان کے نیچے ایک قرار متفقہ طور پر منظور ہوئی جو! 23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے علاحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ 14 اگست 1947 ء منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

لا الہ الا اللہ ۔۔۔ کے نعرے کی گونج میں اسلامی جموریہ پاکستان کا سفر 23 مارچ 1940ء کوآغاز ہوا تھا۔ اس د ن ڈاکٹرعلامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے لیے قائد اعظم کی قیادت میں قافلے نے رخت سفر باندھا۔ یہ پر عزم لوگ تھے۔ یہ معاشرے کے وہ پسے ہوئے افراد تھے کہ جنہیں انگریزوں اور ہندوؤں نے زندگی کی ہر خوشی سے محروم کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اپنا حق لینے نکلے تھے۔ یہ نہتے لوگ ہر قسم کے طوفانوں، چٹانوں اورموت سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ یوم پاکستان نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں اہم ترین مقام رکھتا ہے کیونکہ اسی دن ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا اور ایک ایسی جدوجہد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو مکمل طور پر پر امن تھی۔ یہ سفر آسان ہرگز نہ تھا کیونکہ قدم قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا تھا ہر ہر قدم پر شدید مخالفت اور مشکلات کا سامنا تھا۔ کچھ اپنے مخالف تھے تو کچھ بیگانے سازشیں کر رہے تھے۔

کہیں ہندوؤں کا پروپیگنڈا تھا تو کہیں انگریزوں کے الزامات۔ عذابِ زندگی قیدو بند کی صعوبتیں تھیں تو کچھ سزاؤں کی داستانیں۔ مقدمات کا سامنا تھا تو کہیں ریاستی جبر سے مقابلہ۔۔ کتنے ہی لوگوں کو اپنے پیاروں سے محروم ہونا پڑا۔ کتنی ماؤں بہنوں کے آنچل چھین لیے گئے۔۔ کتنے معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کتنے ہی خوبصورت نوجوان بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔ ہجرت کی داستانیں تو اتنی غمناک ہیں کہ راتوں کی نیند اڑ جائے۔۔ ہجرت بھی ایسی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا۔۔ عزت اور دولت کے ڈاکوؤں سے بچ کر گزرنا تھا۔ جو شاہانہ زندگی گزارتے تھے ان کے لیے اب خیموں کی صعوبتیں تھیں۔۔ جو گاڑیوں میں گھومتے تھے انہیں سینکڑوں میل پیدل آنا تھا۔۔ لیکن یہ لوگ باہمت اور جوان جذبوں والے تھے۔۔ ان غیر مسلح لوگوں نے ظالم ہندوؤں اور بربریت کی داستانیں رقم کرنیوالے انگریزوں سے ٹکرانا تھا۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ان پرعزم اور باہمت لوگوں نے یہ خواب سچا کر دیکھایا۔ صرف سات سال کی انتھک محنت اور جدوجہد نے ہی تمام مخالفوں کو پاکستان کا مطالبہ منظور کرنے پر مجبور کر دیا 23 مارچ 1940ء کو دیکھا گیا خواب 14 اگست1947ء کوپنی تعبیر سے ہمکنار ہوا تھا۔

یورپ میں مطالعہ ، سیر اور مسجد قرطبہ میں اذان دینے کے بعد ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظرئیے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظرئیے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا۔ 1936ء سے 1938ء تک آپ نے قائداعظم کو جوخط لکھے تھے ان میں بھی دو قومی نظرئیے صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

بابائے قوم محمد علی جناح بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی دشمنی بھی لی ۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ اور سیاسی جماعت منوائی۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔یعنی اسلامی جموریہ پاکستان کا وجود دو قومی نظریہ پر مبنی ہے اسی لئے پاکستان کو اسلامی نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے!یہ بھی سچ ہے کہ دو قومی نظریہ کے متعلق سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ ہندی اردو جھگڑے کی صورت میں ہم ان دو مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں جو باوجود اس حقیقت کے کہ صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھی تھیں لیکن ریل کی دو پٹریوں کی طرح یا بجلی کے ایک ہی کیبل کے اندر دو تاروں کی طرح اور یا پھر ندی کے دو کناروں کی طرح نہ کبھی ماضی میں آپس میں گھل مل سکے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے گھل مل جانے کا کوئی امکان ہو گا۔

مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناح ،علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور سر سید احمد خان نے ان تھک محنت کر کے دو قومی نظریہ کو باور کروایا کہ مسلمان اور غیر مسلمان میں کیا فرق ہے! جی ہاں دنیا اور آخرت کی عظیم ہستی پیارے خدا کے پیارے محبوب صاحبِ لولاک جناب حضرت محمد ۖ کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ساڈھے چودہ سوسال پہلے ہی دنیا کو دیکھا دیا تھا کہ مسلمان اور غیر مسلمان الگ الگ ہیں۔

آج کے دن ہم کو عہد کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے سر سید احمد خان ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے دو قومی نظریہ پر عمل کر کے ہی ملک و قوم کی خدمت اور اللہ پاک اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول کا قرب حاصل کر سکتے ہیں ، دو قومی نظریہ ہی مسلمانوں اور کافروں میں تفریق کرتا ہے۔ اور ملک عزیز کی حفاظت اور خدمت کے لئے دو قومی نظریہ پر کسی صورت سمجھوت انہیں کریں گئے۔بقول شاعر

حرم کو جائے گی اگر یہ رہ گزر تو جاؤں گا نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاؤں گا
خدا سے جو کرے وفا، چلے جو سوئے مصطفےٰ مجھے وہ شہ سوار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا