تحریر : میمونہ صدف نظریہ سے مراد وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے مطابق اقوام اپنی زندگیاں بسر کرتی ہیں۔ یہی فلسفہ ایک قوم کو دوسری سے جداگانہ رنگ اور پہچان عطاء کرتا ہے ۔ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اقوام ہیں ان کا رہن سہن ، بودو باش ، عبادات ، قومی اور فکری سوچ ، یہاں تک کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا بد ترین دشمن ہے ۔ مسلمان ایک اللہ اور ایک رسول ۖ کے پیروکار ہیں جبکہ ہندوئوں میں کئی کئی بتوں کی پوجا کی جاتی ہے ۔ہندوئوں کے لیے گائے ایک مقدس جانور ہے جبکہ مسلمانوں کے لیے گائے کی قربانی کرنا ایک احسن عمل ہے ۔ گائے کی قربانی کی وجہ سے آج تک ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات ہو رہے ہیں ۔ہندو مسلمانوں کو ایک دخل انداز قوم قرار دیتے ہیں جو ہندوستان میں آئے ۔ ہندو ئو ں کا قومی ترانہ بندے ماترم مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے ۔ ہندو ئوں کی مسلمان دشمنی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مہلک ہتھیاروں اور پلیٹ گنوں کا استعمال کشمیری مسلمانوں پر کئیے جانے والے ظلم کی انتہا ہے ۔کشمیر میں مسلمان خواتین کی بے حرمتی ، حریت راہنمائوں کی شہادت ، کرفیو عام ہے ۔کشمیر میں صدیوں سے آباد بابری مسجد کو اس لیے شہید کر دیا گیا کہ شر پسند ہندوئوں کا نظریہ یہ تھا کہ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کیا جائے ۔ اس مندر کی تعمیر کے لیے بھارت بھر میں تحریکیں بھی چلائی گئی ۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ خود بھارت میں آئے روز ہندو مسلم فسادات عام ہیں جن میں کئی جانیں ضائع ہو رہی ہیں ۔ بھارت میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں چند برس قبل ہونے والے گجرات کے فسادات دنیا کی نظر کے سامنے ہے ۔ ہندوستان میں وہ ہندو جو مسلمان ہو جائیں یا اپنا مذہب عیسایت یا بدھ مت میں تبدیل کر لیں انھیں بے تحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ۔ گھر واپسی جیسی تحریکیں جو ایسے ہندو جنھوں نے مذہب تبدیل کیا ہو انھیں واپس ہندو ازم اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
سرسید احمد خان کو دوقومی نظریہ کا بانی کہا جاتا ہے ۔ جنھوں نے پہلی بار ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں اور ہندوئوں کو دو الگ الگ اقوام کہا ۔ اور دنیا پر یہ واضع کردیا کہ ہندو اور مسلمان اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں تک ایک ساتھ رہے لیکن دونوں نے اپنا جداگانہ تشخص قائم رکھا اور ایک دوسرے میں مدغم نہ ہو سکی ۔ مسلمان جب تک برصغیر پر حکمران رہے تب تک ہندوئوں کو مذہبی آزادی دی گئی۔ کانگرس جو برصغیر میں بسنے والے تمام لوگوں کی نمائندگی کا دعوی کرتی تھی جب بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور مسلمانوں کو معاشرتی فوائد ہونا شروع ہوئے تو کانگرس نے اس تقسیم کے خلاف ایک مہم چلائی جس کی وجہ سے بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ دوسری جانب برصغیر پرانگریزوں کی زیر ِ نگرانی جب کانگرس کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمانوں کے لیے ایک مشکل دور کا آغاز ہو ا۔ نماز کے دوران مساجد کے سامنے ناچ گانا ، مساجد میں سور کا گوشت رکھا جانا ، سکولوں میں مسلمان بچوں سے بھی گاندھی کی تصویر کے سامنے جھکانا اور بندے ماترم کے ترانے کو عام کر نا کچھ ایسی باتیں تھیں جنھوں نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو ماننے پر مجبور کیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح جو متحدہ ہندوستان کے داعی تھے اور کانگرس کا حصہ تھے ۔ کانگرس کے مسلم مخالف رویہ نے انھیں بھی دل برداشتہ کر دیا اور بالآخر انھوں نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی اور پاکستان کے حصول کے لیے ان تھک کوششوں کا آغاز کر دیا۔
پہلی بار برصغیر پاک و ہند میں اس نظریہ کا پرچار علامہ اقبال کے خطاب جو کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ١٩٤٠ء میں کیا گیا ۔ اس خطاب میں علامہ اقبال نے ہندو اور مسلمان الگ الگ ممالک بنانے کی تجویز دی ۔ اس نظریہ کو ہندوئوں نے از راہ ِمذاق نظریہ پاکستان کہنا شروع کیا جو بعد میں اسی نام سے مشہور ہو ا ۔ اسی نظریہ کی سیاسی بنیا د قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی اور سات سال کی انتھک محنت پاکستان کے وجود کا باعث بنی۔
واضع رہے ! کسی بھی قوم کو اگر ذہنی شکست سے دو چار کرنا ہو تو اس قوم کے نوجوانوں کے دماغوں میں ان کے مذہب ، ان کے نظریات کو ابہام کا شکار کر دیا جاتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے نوجوان اپنی ہی تہذیب اور اپنے ہی مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں تو وہ اس نظریے کی حفاظت نہیں کرتے اور دشمن سے مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے دشمن کو مرعوب کرنا از حد ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ١٩٧١ء کی جنگ میں پاک فوج نے ہتھیار ڈا ل دئیے اور بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی تو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندی نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے پاکستان کو دو لخت کر دیا یا ہم پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انھوں نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو بحریہ عرب میں بہا دیا۔
١٩٥٥ء کی پاک بھارت جنگ کا مقصد پاکستان کی تباہی اور پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کرنے کی ایک کوشش تھی اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ایک ملک جو نظریہ کی بنیاد پر آزاد ہو ا ہے اسے دوبارہ سے دست ِ نگر کر لیا جائے۔جب بھارت یہ کرنے میں ناکام ہو گیا تو پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں جیسے آزادی ِ بلوچستان اور سندھو دیش کو مالی معاونت شروع کر دی ۔جس کا ثبوت مختلف اخبار ات و جرائد ، آزادی پسند بلوچ راہمنائوں کے عالمی میڈیا کو دئیے گئے انڑ ویو ز، بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کا بیان ہیں ۔ بھارت کے پاکستان مخالف رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں پاکستان کے سفیر تک کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔بھارت کی جانب آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں ،سی پیک کی عالمی سطح پر مخالفت اور پاکستان کو اقوامِ عالم میں ایک دہشت گر د ملک باور کروانے کی کوئی کوشش فروگزاشت نہیں کی گئی۔
نام نہاد مفکرین جو پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کوصرف ایک باڑ قرار دیتے ہیں ۔انھیں یہ باور کروانا از حد ضروری ہے کہ یہ سرحد جو پاکستان اور بھارت کو الگ الگ ریاست بناتی ہے ۔صرف ایک سرحد نہیں بلکہ خون سے سنچی گئی ایک ایسی حد ہے جس کے اس پار بسنے والے مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ جہاںمسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام بھی کسی قسم کے مذہبی فسادات سے محفوظ ہیں ۔ بلکہ اس عظیم ریاست نے اسلام کے قوانین کے عین مطابق اقلیوں کے حقوق کی پاسداری بھی کی جاتی ہے جس کا نمونہ حال ہی میں سکھوں کی شادیوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کے بل کا پاس ہو جا نا ہے ۔ اس طرح پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سکھوں کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے ۔ یہاںمندر ، چرچ ، گردوارے بھی آباد ہیں ۔ یہاں بسنے والی کسی قوم کے فرد کو اکثریت سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اگر آج ہم ، ان لاکھوں ،کروڑوں مسلمانوں کی جانی ، مالی اور عزت کی قربانیوں کو فراموش کر دیں گے تو یہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔