تحریر : شیخ خالد زاہد ابھی معلوم نہیں کے اس مضمون میں آپکو آگے کیا پڑھنے کو ملنے والا ہے۔ زندگی میں بہت سارے معاملات سیدھی سڑک پر چلتے ہوئے اچانک سے دائیں یا بائیں سے کسی گاڑی کا نمودار ہوجانا جو کہ کسی حادثے کا سبب بنتا ہے یا پھر حادثے کے قریب لیجاتا ہے یا پھر بلکل سیدھی وکٹ پر کھیلتے ہوئے اچانک سے کسی وکٹ سے محروم بیزار گیند باز کی ایک گیند کااچانک ٹرن ہوجانا یا پھر اضافی اچھال پیدا ہوجانا بلے باز کیلئے اسکی واری ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔ حادثے ہماری طاق میں لمحوں میں چھپے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہمیں تنہا پاتے ہی دبوچ لیتے ہیں شائد یہ وہ لمحے ہوتے ہوں جن میں ہم خودی کی چادر اوڑھ کر دعاؤں اور رحمتوں کی چھتری سے کہیں باہر نکل جاتے ہیں۔ کب کہاں سے کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی ناممکن سی بات ہے ، اسی طرح سے قدرت ہمیں خوشیاں بھی کب کہاں سے دیتا ہے ہمارے علم سے ماورا ہوتی ہیں اور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ ان باتوں سے علم کا بہت گہرا تعلق ہے علم والوں کو کسی حد تک علم ہوتا ہے کہ اب کیا ہوسکتا ہے اور کب کیا ہو سکتا ہے۔
مغرب نے ہم پر مادیت کی چادر تانی اور ہم پر سے آہستہ آہستہ روحانیت کی چادر کھینچ لی ۔ آج مادیت کی آلودگی میں ہم سب لتھڑتے چلے جا رہے ہیں ، ہم نے ہر چیز کو تولنا شروع کررکھا ہے ۔ تعلق داریاں ہوں ، ہمدردیاں ہوں یا پھر نفرتیں ہم نے ہر رشتے اور ہر جذبے کیلئے ترازوں لگا لئے ہیں ۔ ہم نے خود ہی طے کرلیا ہے کہ کس کے تعلق میں کتنی ملاوٹ ہے اور ہم خود ہی درجہ بندیاں بھی کرتے جا رہے ہیں۔ ایسا سمجھ لیا جائے کہ ہمارے تعلقات جسموں سے ہیں مگر ان جسموں میں بسے جذبات و احساسات مختلف ترازؤں کے پلڑوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ اب کوئی لاکھ یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ وہ آپ سے بے لوث مل رہا ہے مگر زمانہ آپ کو یہ یقین دلا دیگا کہ ملنے والا کس مقصد سے مل رہا ہے۔ اس بات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے اور میری خواہش ہے کہ ہر پڑھنے والا میری اس تحقیق کو رد کر دے۔
ہم نے تعلیم کو ایک ایسی خوفناک ڈراؤنی چیز بنا دیا ہے جس سے عام لوگوں کو ڈر لگنے لگا ہے، ڈر سے مکتی انہیں ملی ہوئی ہے جن کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہے ایسے لوگوں نے اس ڈراؤنے نظام کو خوبصورت ماسک لگا رکھا ہے ۔ ہمارے ملک کا عام آدمی اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی نظام سے باز رکھنا چاہتا ہے جسے وہ نا تو مالی طور پر برداشت کرسکتا ہے اور ناہی اخلاقی طور پر ۔ دنیا کا دباؤ ہے کہ علم وہ حاصل کرو جس سے دنیا کو کچھ دے سکو اور دنیا سے بہت کچھ لے سکو،دوسری طرف ایک دائیمی معاملہ درپیش ہے جسکا تکازہ یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرو جس کی بدولت دنیا کی عارضی زندگی کے بعد دوبارہ ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کیلئے آسائشیں جمع کرسکو۔ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی زندگی بھر اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کے کرنا کیا ہے اور تادم مرگ ذہنی الجھنوں میں الجھے ہی رہتے ہیں۔ دنیا میں ایک جنت بنائی گئی اور اس جنت میں و ہ تمام انتظام کئے گئے جس کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں کیا گیا ہے۔
اس جنت کے بنانے کا مقصد بہت واضح تھا کہ ان لوگوں کو جو مرنے کے بعد جنت میں جانے کی تیاری میں مشغول تھے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ جب ویسی ہی جنت دنیا میں میسر آسکتی ہے تو پھر نعوذ باللہ مرنے کے بعد وہاں کیا کرنے جائینگے۔ انسان اپنی جبلت سے مجبور رہا ہے اور خواہشات میں ہمیشہ سے محصورہوتا رہا ہے ۔ ان چیزوں کا نقصان تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہوا ہے مگر سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا کیونکہ مسلمان ہی وہ ہیں جنہیں سب سے زیادہ جنت کی رغبت ہے ۔ جنت کے حصول کی جہاں اور لاتعداد وجوہات ہیں وہیں ہر مسلمان کیلئے سب سے بڑی وجہ اپنے دائمی رہنما نبی اخروزماں حضرت محمد ﷺ کا ساتھ ہے ۔ صحابہ کرامؓ جن کو علم کا حصول علم کے سورج سے سمندر سے ہوا ، تمام زندگی جنت سے محبت کے شغف میں گزاری اور اس سرشاری میں بھی مبتلاء رہے کہ آپ ﷺ کی صحبت میسر ہوگی اور سب سے بڑھ کر کبھی نا ختم ہونے والی زندگی ہو۔
ہم ہر عارضی شے سے رغبت پیدا کرلیتے ہیں اور عارضی و دائمی کا فرق مٹا دیتے ہیں اور ایک لمبا چکر کاٹ کر حقیقت کے اس حالے میں حصار میں واپس لوٹ آتے ہیں جہاں سے نکل کربھاگے ہوتے ہیں اور بھٹکنا شروع کیا ہوتا ہے ۔ ہمارے مزاج اور ہم، عمر کے ہر حصے میں مختلف ہوتے ہیں شائد یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے کہ عمر مختلف ادوار میں تقسیم دیکھائی دیتی ہے۔
ترقی کے لفظ کی ایجاد علم کی مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے سبب وجود میں آیا کیونکہ مادیت کی افزائش ترقی کہلائی جاتی رہے گی ۔ اس ترقی کی مرہون منت آج دین کا علم دنیا کے علم سے ٹکرا رہا ہے ،ہمارا نقصان ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہم میں سے ہی ایسے لوگ نکل کر سامنے آرہے ہیں اور غلط رہنمائی کرنے پراپنے سینوں پر تمغے سجا جا رہے ہیں۔ لیکن ان پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا علم انہیں اپنے وجود کے پہلے دن سے ہے۔علم سے شناسائی علم پر کچھ لکھنے سے قبل بہت ضروری ہے ۔ ہم سب اپنے اپنے علم کوہی علم مانتے ہیں یا پھر اپنی اپنی سمجھ کے علم کی چار دیواری میں بمعہ چھت کے قید ہیں۔ ایسا قیدی علم تو معلوم نہیں کب کا فوت ہوچکا ہے جسکی وجہ سے ہی تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟تبدیلی نئے اور پرانے علم کا جھگڑا ہے یا پھر تجربہ کا فرق ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔معاشرے میں ایسے لوگ جو علم کی روشنی پھیلانے میں اور جاہلت کو بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں تقریباً ناپید ہوچکے ہیں۔ افراتفری کی سب سے بڑی وجہ علم کا نا ہونا۔ جہاں علم سے مراد صرف اور صرف ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی معلومات سے ہو تو وہ معاشرہ یا وہ کرہ ارض کس طرح سے خیر و برکت کا اہل ہو سکتا ہے۔
ہمارے درمیان موجود ہر وہ شخص جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور ہر طرح کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے اسے شائد علم کی آگ مل چکی ہے اور وہ لمحہ لمحہ اس آگ میں جلتا ہوا خاک ہوا جا رہا ہے ۔دنیا نے اس آگہی کی آگ کو بھی بہت سارے نام دے رکھے ہیں جنہیں ہم اور آپ مختلف بیماریوں کے نام سے سنتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچئے تو سہی یہ بیماریاں کیوں دائمی ہیں ۔یہ ایک طویل بحث ہے جسے بحث برائے بحث قرار دے کر اکثریت ترک کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ مگر جنہیں علم کی آگ میں جلنے کا شوق ہے وہ پہلے بھی جلتے رہے ہیں اور تاوقت قیامت تک جلتے رہینگے۔ شائد خدا ایسے لوگوں سے کوئی خاص رغبت رکھتا ہو۔