تحریر : محمد آصف اقبال اس ہفتہ کی اہم خبروں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایک سے زائد خبریں ہمارے سامنے آئیں گی۔جن میں مشہور سائنسداں اور ماہر طبعیات اسٹیفن ہاکنگ کا خدا کے وجود سے انکار کے باوجود خدائی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس دنیا سے دوسری دنیا منتقل ہو جانا یعنی انتقال۔این آئی اے عدالت سے اسیمانند کے بیان کی فائل کا غائب ہونا۔ ناسک سے ممبئی تک تقریباً 180 کلومیٹر پیدل چلنے والا 30,000کسانوں کا مارچ۔سبرا منیم سوامی سمیت 32مداخلت کاروں کی عرضیاں برائے بابری مسجد کا اخراج اور سپریم کورٹ کا یہ واضح کردینا کہ صرف فریق پارٹیوں کی بات ہی سنی جائے گی۔دوسری جانب کچھ لو اور دو کی بنیاد پر بابری مسجد کا قضیہ حل کرنے کی وکالت میں مصروف کچھ لوگوں کا غیر ضروری اصرار۔این ڈی اے میں ٹوٹ کے آثار اورلوک سبھا میں 16ممبران والی ٹی ڈی پی کا ناطہ توڑنے کا اشارہ۔کانگریس کی ڈنرڈپلومیسی میں19اپوزیشن پارٹیوںکے رہنمائوں کی شرکت۔ہادیہ اور شفین کی شادی کے متنازع مقدمہ میں سپریم کورٹ کا شادی کے حق میں فیصلہ اور کیرلہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کیا جانا۔مائونوازوں کا دہشت گردانہ حملہ اور 9جوانوں کی ہلاکت۔مالیا اور نیرو سمیت31کاروباری ملک سے فرار۔اور گئورکشا کے نام پر قتل کے معاملے میں جھارکھنڈ کے ایک مقامی کورٹ نے 11لوگوں کو قصور وار پایا جن میں ایک بی کے پی لیڈر کا نام بھی شامل ہے،وغیرہ۔یہ تمام ہی خبریں اہم ہیں اس کے باوجود ان خبروں کے علاوہ ایک اور خبر اس ہفتہ کی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے اور وہ ہے ریاست اترپردیش کے گورکھپوراور پھولپور سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست ۔نیز ریاست بہار کے جہان آباد اسمبلی حلقہ اور ارریہ کی لوک سبھا ضمنی انتخابات میں بی جے پی اور جے ڈی یو کی حکومت کو ہار کا سامنا۔ آپ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیںکہ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جہاں بے شمار کلچر اور مذاہب پر عمل کرنے والے رہتے ہیں۔اس کے باوجود کچھ لوگ ہیں جو کثرت میں وحدت کے قائل نہیں ۔اُن کا ماننا ہے کہ ملک میں موجود ثقافتی تنوع ختم ہونا چاہیے اور پورے ملک کو ایک ہی ثقافتی رنگ میں رچ بس جانا چاہیے۔
اس پس منظر میں وقتاً فوقتاً مسائل آتے ہیں جن کے اثرات نہ صرف معاشرتی سطح پر چیلنجز کی شکل میں ابھر کے سامنے آتے ہیں بلکہ سیاسی انتشاروافتراق اور اتحاد کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔کچھ ایسے ہی حالات سے آج کل ہندوستان کی عوام بھی نبرد آزما ہے۔جس کی ایک واضح شکل گزشتہ گجرات اسمبلی انتخابات میں سامنے آئی تھی وہیں ابھی چند دن پہلے اترپردیش اور بہار میں ایک بار پھر سامنے آئی ہے۔اترپردیش اور بہار ضمنی انتخابات کے نتائج نے سیاسی بساط پر ایک بار پھر ماحول بدلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔گورکھپور جس پر گزشتہ تین دہائیوں یعنی 30سال سے بی جے پی کا قبضہ تھا۔اسی مقام سے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈر نمائندگی کرتے ہیں۔اور یہ وہی لیڈر ہیں جنہیں مستقبل میں نریندر مودی کے جانشین طور پر پروجیکٹ بھی کیا جا رہا تھا۔اس کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ کو پہلی مرتبہ بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بی جے پی کے امیدوار اوپیندرشکلا کو سماج وادی پارٹی کے پروین نشاد نے تقریباً22ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔وہیں دوسری جانب پھول پور میں بی جے پی لیڈر اور ڈپٹی سی ایم کیش پرسادموریہ کے قلعہ پر بھی سماج وادی پارٹی کے ناگیندر پرتاپ سنگھ پٹیل نے 59460ووٹوں اپنی کامیابی درج کرائی۔
یہ کیسے ممکن ہوا؟اور کیوں بی جے پی ان دو اہم مقامات پر کامیاب نہیں ہو سکی؟اس کے باوجود کہ ایک مقام وزیر اعلیٰ کا تھا تو دوسرا ڈپٹی وزیر اعلیٰ سے تعلق رکھتا تھا۔اور ان دونوں ہی مقامات پر گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے شاندار جیت بھی درج کروائی تھی ۔لیکن اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ ان دونوں ہی مقامات پر بی جے پی کو ہار کا سامنا کرنا پڑاہے؟کیا یہ ووٹروں کی عقل مندی کا نتیجہ ہے؟یا بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ کی خامی ہے؟یا پھر ملک کے تشویشناک حالات کے پیش نظر بدلتے ہندوستان کی عاقبت اندیشیہے یا اپوزیشن پارٹیوں کی کامیاب تشہیری مہمات،میڈیا کا مثبت کرداراورای وی ایم کی ناکامی ہے؟ان سب میں سے وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر حددرجہ منظم ،متحد،دولت منداور کیڈربیس پارٹی کی ناکامی آج پورے ملک کے سامنے آئی ہے؟سوال کے جواب میں کچھ لوگ یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ یہ ووٹروں کی دوررس اور بصیرت افروز نظروںکا کمال ہے تو کچھ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کی اندرونی کشمکش ہی دراصل بی جے پی کی ناکامی کا سبب ہے۔
وہیں کچھ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ درحقیقت نریندر مودی ایک بڑے خطیب ہیں جن کے جال میں بے چارہ ووٹر پھنس جاتا ہے،ان کے کیے گئے وعدوں اور دعوئوں سے آس لگا لیتا ہے اور چونکہ گزشتہ حکومت نے ملک و ریاست میں بے انتہا کرپشن کیا تھا اور ترقی و فلاح و بہبود کے کام کاج کرنا بند کردیے تھے لہذا گزشتہ دنوں بی جے پی کامیاب ہوتی رہی ۔ان تمام جوابات کے علاوہ ایک اور جواب جوڑا جا سکتا ہے اور جوڑا جانا چاہیے ،کیونکہ یہ جواب کئی حلقوں سے گزشتہ نتائج میں وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں اور وہ ہے مسلمان لیڈران اورووٹروں کی غیر دانشمندانہ بیانات،کوششیں اور ووٹ کے حق کا غلط استعمال،جس کے نتیجہ میں ووٹوں کا پولرائزیشن ہوتا ہے اور جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے۔ان تمام جوابات کی روشنی میں ایک بار پھرہم آپ کو وہ مناظر یاد دلانا چاہتے ہیں جبکہ 2014میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج سامنے آئے تھے اور بی جے پی کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔وہیں2016اور2017میں بالترتیب آسام اسمبلی انتخابات واترپردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تھا اور بی جے پی نے مکمل اکثریت حاصل کی تھی۔خصوصاً اُن تین مواقع پر آپ درج بالا جوابات کو پھر سے غور سے پڑھیے اور سچائی و دیانت کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ اس وقت اِن جوابات میں سے آپ کا جواب کون سا تھا؟کیا انہیں جوابات میں آپ کا جواب بھی موجود نہیں تھا؟
آپ کا یا اکثریت کا جواب کچھ بھی رہا ہولیکن ہمیں اِن تینوں مواقع پر خصوصاً2014اور2016کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے نتائج کے موقع پر اپنا جواب یاد ہے۔ہم نے لکھا تھا کہ مسلمانانِ ہند جو خصوصاً 16مئی 2014کے بعد ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں، انہیں بتانا چاہیے کہ آپ کا یہ طرزِ عمل آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی حیثیت سے آج خود ہی واقف نہیں ۔ لیکن جس طرح انتخابی نتائج کے بعد نہ صرف ناکام زدہ افراد اور پارٹیوں نے ناکامی کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کی اور بلاواسطہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے،یہ غلط ہے۔ وہیں خود مسلمان بھی مسلم تنظیموں کے قائدین، علما کرام اور قائدین ملت کے فیصلوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں چوک رہے ہیں۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ ناکامی آپ کی ہوئی ہے یا ان سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کی جن کی روٹی روزی ہی آپ کے توسط سے پہنچتی تھی؟ درحقیقت تقسیم تو وہ ہوئے ہیں اور اُنہیں، ان ہی کے اعمالِ بد نے رسوا بھی کیا ہے۔
اس سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی غلطیوں کا اندازہ کر چکے ہیں بلکہ طرزِ عمل میں تبدیلی بھی لایا چاہتے ہیں۔اس اقتباس کی روشنی میں اترپردیش کے حالیہ لوک سبھا ضمنی انتخابات ونتائج اورآخری وقت میں اپنے دیرینہ حریف سماج وادی پارٹی کو مایاوتی کا حمایت دینے کے اعلان نے ،پورا سیاسی نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا۔اور وہ تمام مفروضے،الزامات اور خیالات ناکام ٹھہرے جو عموماً کسی بھی الیکشن کے نتائج کے بعد بی جے پی کی کامیابی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔اور واقعہ بھی یہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ذاتی مفادات و اختلاف کا خمیازہ ملک کی اکثریت کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے باوجوداٹھانا پڑتا ہے۔برخلاف اس کے جب ان کے اختلافات کم ہوتے ہیں اور ذاتی مفاد حل ہوتے نظر آتے ہیں تو نتائج وہی آتے ہیں جو اکثریت چاہتی ہے ۔لہذا اس پورے وسیع تر پس منظر میں ،یاد رکھیں ملک کا سیاسی منظرنامہ نہ صرف آج بلکہ گزشتہ 70 سالوں میں لگاتار تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجود کامیابی سے ہمکنار وہی ہوئے ہیں جو بظاہر ناکامیوں کے بعد بھی اپنے موقف پر جمے رہے، حوصلے بلند رکھے، لائحہ عمل میں تبدیلی کی اور کامیابیوں کے سراغ تلاش کرتے رہے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com