یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

Fire

Fire

اے کاش کوئی آئینہ ایسا بنا سکے

لوگوں کو ان کا چہرہ جو اصلی دکھا سکے

جھلسا رہی ہے جو مرے پورے وجود کو

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

جس نے بھی ہاتھ تھاما کہیں اور لے چلا

حسرت رہی کوئی ہمیں منزل دکھا سکے

اک عمر تیرے شہر میں ہم نے گذار دی

پھر بھی نہ تیرے دل میں کبھی ہم سما سکے

کردار پاک صاف ہو عزت اسی میں ہے

کس کی مجال ہے کوئی انگلی اٹھا سکے

ہر چیز بے وفا کی رکھی ہے سنبھال کر

شائید ایک دن وہ انہیں لینے آ سکے

وہ لاکھ بھول جائے سبھی بات کو مگر

اس کی ہے کیا مجال جو ہم کو بھلا سکے

محمد ارشد قریشی