تحریر : رائو عمران سلیمان اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہیں ،مگر ان تمام تر قربانیوں کے باوجود بھی امریکا اور اورافغانستان کی جانب سے پاکستان کے کردار کو نظر اندازکیا گیا اور یہ دونوں ہی ممالک اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالتے رہے ہیں۔امریکا کی جانب سے جب افغانستان میں ڈیرے ڈالے گئے تو وہ اس گمان میں گم تھا کہ اس کے سامنے کوئی بولنے والا نہیں ہوگاوہ سمجھتا تھا کہ وہ افغانستان میں موجود طالبان کا جلد ہی صفایا کردیگا اور وہاں پر موجود قدرتی وسائل اور تیل پر اپنا تسلط جمالے گا،مگر اسے بعد میں معلوم ہوا کہ سب کچھ اس کی امید کے برعکس ہورہاہے اسے جب ہوش آیا تب تک اسے اپنی ہی جان کے لالے پڑچکے تھے ،مگر اب امریکا یہ بات جان چکاہے کہ وہ اپنا معاملہ طاقت کے زریعے حل نہیں کرپائے گا،اس لیے اس نے طالبان کو مزاکرات کی میز پر لانے کے لیے افغان حکومت کو اکسانا شروع کر دیا ہے۔
امریکا یہ بھی جان چکاہے کہ طالبان اس قدر آسانی سے مزاکرات کی میز پر نہیں آئینگے کیونکہ طالبان یہ چاہتے ہیں کہ پہلے امریکا افغانستان سے نکلیں تب ہی وہ افغان حکومت سے سے مزاکرات کی جانب آسکتے ہیں جبکہ طالبان یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکا بجائے افغانستان کو بیچ میں لانے کے خود طالبان سے بات کیوں نہیں کرتا؟ ۔ افغانستان میںا س وقت طالبا ن 70فیصد علاقے پرقابض ہوچکے ہیں جہاں وہ جو چاہے کرسکتے ہیں یعنی وہ افغانستان کی ایک موثر طاقت کے طور پر اپنا وجود رکھتے ہیں، ایسے میں کابل حکومت اب مکمل طورپروہاں پر موجود طالبان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں افغان صدر نے پاکستان کو یہ کہاہے کہ پاکستان دہشت گردی کے معاملے میں ان کی مدد کرے کیونکہ امریکی ناکامیوں کے بعد کابل کی حکومت نے بھی طالبان کو ایک سیاسی قوت بھی تسلیم کر لیا ہے اوریہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں اشرف غنی نے طالبان کو انتخابی معاملات میں حصہ لینے کی پیشکش بھی کی تھی جس کا تاحال انہیں کوئی جواب نہ مل سکا ہے ،ہاں یہ تبدیلی ضرور ہے کہ کابل کی حکومت اب طالبان سے بات کرنے کی خواہش مند ہے جبکہ ماضی میں وہ طالبان کو صرف دہشت گردتنظیم کے نام سے پکارتی رہی ہے اور امریکا کے ساتھ ملکر اس کے خاتمے کی متمنی تھی لیکن اب افغان حکومت نے طالبان کو ایک سیاسی قوت کے طورپر تسلیم کرلیاہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ کہیں طالبان کا قبضہ پورے افغانستان تک ہی نہ پھیل جائے وہ فوری طورپر اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی تلاش میںہیں دوسری طرف افغان طالبان کی جانب سے امریکا کو براہ راست مزاکرات کی تجویز بھی دے رکھی ہے مگرامریکا کا کہنا ہے کہ طالبان صرف افغان حکومت سے ہی بات کریں پاکستان نے اس سارے معاملے کو خوش آمدید کہا ہے لیکن اس مزاکرات کاعمل اس صورت میں شروع ہوسکتا ہے کہ جب چین اورپاکستان بھی طالبان کو یہ پیغام دیں کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ مزاکرات کی میز پر اکھٹے ہوکر غیر مشروط مزاکرات کریں فی الحال یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ مزاکرات کب شروع ہونگے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یقینا پاکستان کو افغانستان کی مدد کرنا چاہیے مگر اس سے قبل پاکستان کو افغان حکومت سے بات کرنا ہوگی کہ افغان حکومت پاکستان کے ساتھ دوھرامعیار بند کردے کیونکہ ایک جانب وہ بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کا امن تباہ کرنے میں مصروف ہے اور دوسری جانب طالبان کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرورسوخ کے خوف سے وہ پاکستان سے ہی مدد کی بھیک مانگ رہاہے حالانکہ یہ سب جانتے ہوئے کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی مدد کرتا چلا آرہاہے یہاں تک کہ اس مدد میں پاکستان کو بے شمار جانی و مالی نقصانات سے گزرنا پڑاہے کیونکہ امن کی خواہش اگرافغانستان کو ہے تو پاکستان کیونکر اپنے ملک میں امن نہیں چاہے گا بھارت جہاں کنٹرول لائن پر پاکستان کی سرحدوں کو نشانہ بنارہاہے وہاں افغانستان میں بیٹھ کرپاکستان کا امن تباہ کرنے میں بھی مصروف عمل ہے کیونکہ بھارت افغانستان میں کابل حکومت کی مرضی کے بغیر یہ سب سازشیں نہیں کرسکتالہذا افغانستان اگر یہ چاہتا ہے کہ چین اور پاکستان اس کی مدد کریں تو یقیناً انہیں شروعات اپنے گھر سے کرنا ہوگی اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگااور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ افغانستان پاکستان کیساتھ دوھرا معیار رکھ کر نہیں چل سکتا۔موجود وقتوں میں امریکا اور افغانستان دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس مسئلے کا حل نکالے جس کایہ برملا اظہار کرچکے ہیں ۔ مگر اس سے پہلے افغان صدر اگر اس جنگ کو جیتنے کی بجائے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں دوغلی سیاست کو خیر آباد کہنا ہو گا۔
جہاں تک مزاکرات کا زکر ہے توماضی میں بھی طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان محدود مزاکرات ہوچکے ہیں مگر چند ایک معاملات کی بنا پر مزاکرات کو آگے نہ بڑھایا جاسکاہے کیونکہ مزاکرات کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہوگی کہ کچھ باتیں افغانستان تو کچھ باتیں طالبان کو بھی ماننا پڑینگی ،اور طالبا ن کی ایک شرط یہ ہوگی کہ پہلے امریکا افغانستان سے نکل جائے ۔فی الحال اب کابل حکومت مزاکرات کے واضح حق میں ہے اور چین اور پاکستان کی مدد سے اس معاملے کو آگے چلوانا چاہتے ہیں۔امریکا کی جانب سے جس طرح پاکستان کے خلاف نفرتوں کاسلسلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شروع کررکھا ہے وہ اب پوری دنیا میں ہی عیاں ہو چکا ہے۔
پاکستان کو واچ لسٹ میں رکھنے اور اس کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دینے کے باجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک روزہ دورہ واشنگٹن بھی کچھ سمجھ سے بالاتر نظر آتاہے ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر مسلسل ٹویٹر پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیںجس نے پاکستان کو کہا کہ پاکستان کو 15 سالوں میں 33ملین ڈالر دیکر حماقت کی گئی اور یہ کہ پاکستان نے امریکا کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہ دیاہے ،یقینا پاکستان کو امریکی صدر سے ان لفظوں کی وضاحت طلب کرنی چاہے تھی مگر ایسے میں پاکستان کے وزیراعظم کی اچانک امریکی نائب صدر مائک پینس سے ملاقات کا معاملہ کچھ ہضم نہیں ہونے کو آرہاہے جہاں ملاقات میںوزیراعظم پاکستان کے سامنے ایک بار پھر افغانستان کے معاملے میں ڈومور کا مطالبہ کیا گیاہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جہاں افغانستان پاکستان کے گھٹنوں میں آبیٹھا ہے بلکل اسی طرح امریکا بھی اب اپنی ناکامیوں میں گھر چکاہے وہ جان چکاہے کہ وہ کسی بھی حال میں افغانستان میں اپنی پالیسیوں کو نہیں چلاپائے گامگر یہ امریکا کی ہٹ دھرمی ہے کہ اس قدر ناکامیوں کے باوجود بھی پاکستان سے ڈورمور کا مطالبہ کرتا رہتاہے اور ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرے جبکہ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے یہ واضح پیغام دیا جاچکاہے کہ پاکستان میں حقانی ودیگرگروپ کا اب کوئی ٹھکانہ نہیںہے انہیں ختم کردیاگیاہے اور یہ کہ باقی عناصر کے خلاف ردالفساد جاری ہے ۔ چونکہ افغانستان میں کابل حکومت کے ساتھ امریکا بھی شدید ناکامیوں سے دوچار ہے اس لیے امریکا پاکستان سے مدد لینے کے ساتھ اس پر دبائو ڈالنے کی پالیسیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے ، مگر پاکستان کو کسی بھی حال میں امریکا کی گود میں نہیں گرنا چاہیے بلکہ اس بات کا انتظار کرنا چاہیے کہ امریکا کو ضرورت ہوگی تو وہ خود اس سے بات کریگا اور یہ کہ جس طرح افغانستان بھارت کو اپنی سرزمین کواستعمال کرنے سے روکے بلکل اسی طرح امریکا بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے اور بے بنیاد الزامات لگانے اوردہشت گردی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بجائے اپنے مشکوک قردار پر غور کرے۔