تحریر : وقار احمد اعوان ہر روز کا تماشہ بھی کیا کیا رنگ دکھا جاتا ہے،بے چارہ آدمی کیا سوچتا ہے اور ہو کیا جاتاہے؟سنا ہے یہ زندگی کے میلے ہے ،رنگ ہیں کہ جن میں آدمی کبھی رنگ تو کبھی زنگ آلود ہو جاتا ہے ،یہ بھی ایک اچھا خاصا مذاق ہے کہ آدمی ہر روز تماشہ بنا ہوتا ہے۔اور جیسے بقول شاعر ہے کہ
کیا کیا یہاں پہ زیست کے سامان بک گئے مجبور ہوکے آپ ہی انسان بک گئے بولی لگی ہوئی تھی غلامانِ دہر کی لیکن ہمارے شہر کے سلطان بک گئے
یقینا جب انسان زندگی سے ہرموڑ پر ٹھوکرے کھانے لگے تو اسے زندگی اپنے پر بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔انسان کی ہرروز کی خواہش اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی ،کیونکہ اسے اس دنیا میں جینا بھی توہے۔اسے دنیا کے وہ تمام گُر نہ چاہتے ہوئے بھی سیکھنا پڑجاتے ہیں کہ جن سے وہ کبھی کبھا ربھاگنے کی ایک ناکام سی کوشش کرتاہے ۔ہر روز اسے ایک امتحان سے گزرنا پڑجاتاہے،بلکہ یوںکہئے کہ ہر روز اس کے لئے ایک امتحان کا دن ہوتاہے۔یا یہ بھی کیا خوب کہی ہے کسی نے کہ
کوئی یزداں ہے یہاں ،کوئی فرشتہ ہے یہاں کیا بری بات ،آدمی گر انساں ہوتا
انسان کو انسان مشکل سے سہی کبھی کبھار قدرت کے بنائے ہوئے اس نظام میں ضرور ایک دن نظرآجاتاہے ،جہاں اسے اپنی اوقات اور اپنی سوچ کچھ اس قدر بے معنی سی معلوم ہونے لگتی ہے کہ جیسے وہ دنیا میں بنامقصد کے ہی بھیجا گیاہو،البتہ دنیا کے رنگ ڈھنگ بھی اسے کہیں کا نہیںچھوڑتے ،بے چارہ آدم زاد لاکھ کوشش کرتاہے کہ اپنی سوچ کو اس میزان میں پورا اتار دے کہ جس میزان میں دنیا اسے دوشی نہ ٹھہرائے اور یا اسے معاشرہ میں وہ عزت ومقام عطا کردے کہ جس کے پانے کی غرض سے وہ جی رہاہوتا ہے ۔تاہم وقت اور حالات کی منظر کشی کرنے والے تو کچھ یوںکہا کرتے ہیں کہ
عشاق بہت ہیں تیرے بیمار بہت ہیں تجھ حسن دل آرام کے حقدار بہت ہیں کس سمت چلیں کونسی دہلیز پہ بیٹھیں اس شہر میں کچھ بھی ہو،ریاکار بہت ہیں ڈھونڈو تو کوئی سچ کا پیغمبرنہیں ملتا دیکھو یہاں صاحبِ کردار بہت ہیں
بے چارہ آدم زاد اپنی اصلاح کی غرض سے اِدھر اُدھر بھٹکتا ضرور ہے تاہم رہرو ،رہبر اسے کبھی کبھی ملتاہے،اسے تو منزل کی جانب بڑھنا ہے لیکن منزل پاس ہوتے ہوئے بھی ایک آدمی کی بدولت اسے انسان بننے سے یکسر محروم رکھتی ہے،وقت کا پلڑا بھی بھاری اور بوجھل معلوم ہونے لگتاہے اور پھر سوچ ان باتوں کے گرد گھومتی نظرآتی ہے کہ
سینے میںجلن آنکھوں میںطوفان سا کیوں ہے؟ اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟ تنہائی کی یہ کونسی منزل ہے رفیقو تاحد نظر دیکھ بیابان سا کیوں ہے؟ دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے؟ کیا کوئی نئی بات نظرآتی ہے ہم میں آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوںہے؟
بہرکیف زندگی کا یہ خراماں خراماں سفر زندگی جینے کے رنگ بھی سکھاتا ہے اور ڈھنگ بھی۔بس آدمی آدمی کی بات ہے کہ انسان بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔بسا اوقا ت وہ انسان ہی ہوتاہے مگر نہ جانے کیوں پھر سے آدمی بننے کی کوشش کرتاہے ،یہ سوچ اس پر حاوی ضرور ہوتی ہے لیکن انسان اس سو چ کا غلام نہیں۔