تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی حق تعالیٰ فرماتے ہیں ہم جس کو پسند کر تے ہیں جس پر بہت پیار آتا ہے اُس کے دل میں قطرہ عشق ٹپکا دیتے ہیں ‘وہی قطرہ سمندر بن کر سالک کو نور حق میں شرابور کر دیتا ہے ‘نوجوان معین الدین کے لیے رحمت حق چھلک پڑی تھی ‘اشار ہ غیبی کے تحت کامل فقیر حضرت ابراہیم قندوزی روٹی کا خشک ٹکڑا نوجوان معین الدین کے منہ میں ڈال چکے تھے اپنا فرض ادا کر کے جناب ابراہیم قندوزی تو وہاں سے چلے گئے لیکن درویش کامل روٹی کے ٹکڑے میں روحانی لنگر دے کر گئے تھے ‘ناجانے درویش کے نوالے میں کیا بات تھی روٹی کا ٹکڑا جیسے ہی حلق سے اُترا نو ر کی روشن لکیر با طن کے عمیق ترین گوشوں کو نور میں نہلاتی چلی گئی ‘نو رحق نے فوری اپنا کام کیا وہی با غ اور زمین جو کل تک درخشاں مستقبل کی امین نظر آتی تھی اب خا ر دار جھا ڑیاں لگ رہی تھیں با غ کی زرخیزی بنجر زمین نظر آرہی تھی با غ کی ہریالی کی جگہ سلگتے جھلستے ریگستانوں نے لے لی تھی ‘ہر چیز حقیر نظر آنے لگی ‘طبیعت میںہیجان ‘وحشت، تلاش اور اضطراب بھر گیا ‘قلب و روح عشقِ مصطفی ۖ اور عشق الٰہی سے معمو ر ہو گئے ‘کامل درویش اپنا کام کر کے چلا گیا تھا لیکن نو جوان کی دنیا ہی بدل گئی تھیا۔
دنیا کی حقیقت ہیرے جواہرات مٹی کے ڈھیلے نظر آنے لگے دنیا سرا ئے لگنے لگی ‘آخرت کی فکرکا چشمہ پھو ٹ پڑا’ اگلے دن ہی با غ اور چکی فروخت کر دی ‘لوگوں نے نوجوان سید زادے کو بہت سمجھا یا کہ یہ تم کیا بے وقوفی کر رہے ہو اپنی دنیا اور مستقبل اجاڑ کر خو د کو کس کے سہا رے چھو ڑ رہے ہو ‘یہ حما قت نہ کرو لیکن نوجوان کے سامنے دنیا کی حقیقت کھل چکی تھی نوجوان راز زندگی ‘حقیقت ِ زندگی جان چکا تھا با غ اورچکی بیچنے کے بعد جو اگلا عمل نو جوان نے کیا اُسے دیکھ کر لوگ ششدر ہ گئے ‘دنیا دار نوجوان سے ایسے عمل کی بلکل بھی تو قع نہیں کر رہے تھے لیکن تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں واقعات سے روشن ہیں جب کسی پر حق تعالیٰ کے نو ر کی تجلی وارد ہو ئی تو اُس نے دنیا کے مال و زر زمین جائیداد کو جو تے کی ٹھو کر پر رکھ کر اڑا دیا اور پھر ساری عمر دنیااور دولت کی طرف سر سری نظر سے بھی نہ دیکھا ‘ما دیت پر ست لو گ حیران تھے کہ نوجوان نے جا ئیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کھڑے کھڑے غریبوں مسکینوں میں با نٹ دی ‘دنیا پر ست حیرت سے مستقبل کے عظیم ترین فقیر کو دیکھ رہے تھے جن کو قیا مت تک کے لیے دلوں پر حکمرانی کرنا تھی ‘دنیا پر ست سمجھ رہے تھے نوجوان کسی ذہنی خلل کا شکار ہو گیا ہے۔
نوجوان کی دماغی حا لت بگڑ گئی ہے کیونکہ کو ئی بھی ہو ش مند انسان ساری جائیداد اللہ کی راہ میں خر چ کر کے ہاتھوں کو نہیں جھا ڑ تے لیکن نوجوان معین اہل دنیا کو حیران کر چکا تھا ‘دنیا دار اُس نو ر سے بے خبر تھے جو نوجوان معین الدین کے قلب و روح کو منور کر چکا تھا ‘ایسا نو ر جس کے سامنے ما دیت پر ستی کے سارے اندھیرے اجا لوں میں بدل جا تے ہیں ‘بچپن میں ہی والدین کی آغوش سے محرومی کیوجہ سے معین الدین علم کی تکمیل سے محروم تھے ‘علم سے دوری معین الدین کو مضطرب رکھتی تھی علم سے دوری خلش کی طرح کانٹا بن کر خیا لا ت کو زخمی کر تی تھی نوجوان معین الدین کی شدید خو اہش تھی کہ وہ کسی طرح اپنا علمی سفر مکمل کر سکے’ اب دنیا وی خرا فات سے آزادی ملی تو فوری طو ر پر علم کے حصول کی طرف متو جہ ہوئے ‘ تلاش علم کے لیے خرا سان کو چھو ڑ کر ثمر قند بخا را کی راہ لی جو اُس وقت اسلامی تعلیمات کے لیے دنیا جہاں میںمشہو ر تھا یہاں پر معین الدین نے پہلے قرآن مجید حفظ کیا پھر تفسیر ‘فقہ ‘حدیث اور دوسرے علوم سے اپنی علمی پیا س بجھا ئی آپ نے دنیا وی علوم کے لیے بے شما ر اساتذہ کے در پر حا ضر ی دی ‘تا ریخ میں آپ کے زیادہ اساتذہ کا تذکرہ نہیں ملتا لیکن مو لانا جسام بخا ری کا ذکر ملتا ہے جن سے معین الدین نے قرآن مجید حفظ کیا ۔ کامل درویشوں کی طرح بچپن سے ہی معین الدین مضطرب اوربے چین فطرت کے مالک تھے ‘آپ سمجھتے تھے کہ دنیا وی علوم حاصل کر نے کے بعد با طن کا ہیجان ‘وحشت ‘اضطراب ختم ہو جا ئے گا با طنی سکون کا جام ملے گاا۔
ظاہری علوم کے بعد بھی دل و دما غ آتش سوزاں میں اُسی طرح جھلس رہے تھے بلکہ علم حاصل کر نے کے بعد یہ بے چینی اور بھی بڑھ گئی کسی پل چین نہ تھا معرفت الٰہی اور عشق الٰہی کی آتش پہلے سے بھی تیز ہو گئی اِس آتش کو صرف مر د کامل یا نگا ہِ مر شد ہی سرد کر سکتی تھی ‘اب کامل مرشد کی راہنما ئی ضروری ہو گئی تھی اب کامل مرشد کی تلاش میں صحرا گردی شروع کر دی ۔ چپے چپے کی خا ک چھانتا یہ نو جوان نیشا پو ر کے نزدیک ایک بستی ہرون میں داخل ہو ا جہاں اِس جگر سوختہ بے قرار نو جوان کو مرد کامل مل گئے جن کا نام حضرت عثمان ہرونی تھا نوجوان مقنا طیسی کشش کے تحت خانقاہِ چشتیہ کی طرف بڑھ گیا ‘چشتی کا لفظ سب سے پہلے حضرت خوا جہ اسحق شامی کے نام کے ساتھ استعمال ہوا ‘خوا جہ اسحق شامی شام کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے رشد و ہدایت کے لیے چشت کا انتخاب کیا تھا جو خراسان کے قریب چھو ٹا سا قصبہ تھا لیکن قدرت نے اس چھو ٹے سے علا قے سے جلنے والے چراغ چشت کو شہرت دوام سے ہمکنا ر کر دیا ۔نوجوان سید زادے کو اپنی منزل یہاں نظر آئی تو ڈیرہ جما لیا ‘آپ طالب علم کے طو رپر حضرت عثمان ہرو نی کی با رگاہ میں داخل ہو تے رہے مگر بے نیاز استاد نے معین الدین پر بلکل بھی تو جہ نہ دی استاد کا رویہ معین الدین کو ما یو سی میں دھکیل دیتا لیکن آپ ہمت کر کے بار بار حضرت عثمان ہرونی کی خدمت میں حا ضر ہو تے رہے ‘ایک دن نوجوان نے استاد محترم سے گزارش کی کہ خدارا اب مجھے اپنی غلا می میں لے لیں مرید بنا لیں ‘بیٹا میں اپنا بو جھ نہیں اٹھا سکتا تمہا را کیسے اٹھا ئوں گا ‘استاد محترم معین الدین کو ٹا لنا چاہتے تھے لیکن معین الدین با ر بار اصرار کر تے رہے کہ آپ کے سینکڑوں مریدین ہیں ایک میں بھی ہو جائوں گا تو کونسا فرق پڑھ جا ئیگا لیکن استاد اب بھی ٹال رہے تھے لیکن معین الدین کا جذبہ ادب احترام دیکھ کر حلقہ مریدی میں داخل کر لیا ‘معین الدین مرشد کی با رگا ہ میںتقریبا ڈھا ئی سال تک رہے آپ غلا موں کی طرح دن رات مرشدکی خدمت کر تے ۔ہرگزرتے دن کے ساتھ معین الدین کے جذبہ عشق و احترام میںاضا فہ ہو رہا تھا ‘حضرت عثمان ہرونی کے با رے میں تذکرہ نگا ر لکھتے ہیں کہ آپ نے جان بو جھ کر خود کو چھپا یا ہو ا تھا ‘دنیا جہان سے لو گ آپ کی شہرت سن کر آپ کے پا س آتے بغور آپ کے شب و رو ز کا مطالعہ کر تے جب کوئی کرامت نہ دیکھتے تو واپس لوٹ جا تے کہ شیخ بھی دنیا دار انسان ہیںا۔
اِن کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے جب سارے لو گ شیخ کو چھو ڑ کر چلے گئے تو انہوں نے نوجوان معین الدین سے بھی کہاکہ جب سارے چلے گئے تو اب تم کیوں نہیںجاتے ‘اپنا وقت بر باد نہ کر و کسی دوسرے در پر حاضری دو لیکن معین الدین نے مرشد کے پا ئوں پکڑ لئے اور کہا شہنشاہ اب میں صرف آپ کا ہو چکا ہوںکسی اور کا دروازہ نہ دکھا ئیں نہ میں نے کہیں جانا ہے ‘معین الدین کا جذبہ احترام دیکھ کر جو ش رحمت حرکت میں آئی ‘مر شد نے والہا نہ انداز میںمعین الدین کو سینے سے لگا یا آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اے رب ذولجلا ل اب تو بھی معین الدین کو قبو ل فرما لے جس نے مجھے تنہا نہیں چھو ڑا ‘دعا قبو ل ہو چکی تھی معین الدین نو ر حق میں شرا بو ر ہو رہے تھے نو ر کی تیز شعاع قلب و روح کو منور کر تی چلی گئی نو ر کی شدت سے تما م حجا بات اٹھتے چلے گئے ‘مر شد بو لے اوپر دیکھو دیکھا تو نظریں درمیان میں حا ئل وسعتوں کو پا ر کر تی چلی گئیں ‘عرش سے تحت اثریٰ تک نظر آرہا تھا معین الدین متحیر تھے مرشد نے ہا تھ سامنے کیا اور کہا دو انگلیوں کے درمیان دیکھو ‘نو جوان معین الدین نے دو انگلیوں کے درمیان عجیب و غریب منا ظر دیکھے جو ما ورائے عقل تھے ‘مرشد بو لے معین الدین تم اٹھا رہ ہزار دنیا ئیں دیکھ رہے ہو ‘معین الدین پو ری کائنات دو انگلیوں میں دیکھ رہے تھے ‘چشمہ چشت ابل رہاتھا ‘معین الدین کے قلب و روح منور ہو رہے تھے بعد میں جب بھی کو ئی سالک حضرت عثمان ہرونی سے روحانیت کی بھیک مانگتا تو آپ فرماتے میرے پا س جو کچھ بھی تھا وہ میںنے معین الدین کو دے دیا۔