ڈالر کی بڑھتی قیمت

Dollar

Dollar

تحریر : پیر توقیر رمضان
جنرل انتخابات سے قبل مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے طرح طرح کے سہانے خواب اور دعوے کیے جاتے ہیں مگر جو پارٹی انتخابات میں کامیاب ہو کر اقتدار میں آتی ہے جب وہ پاکستان کی آمدن کے وسائل ،اخراجات، قرضے ،ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ اور دیگر معملات کو دیکھتی ہے تو اس کے پالیساں ناکام ہو کررہ جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ آج ڈالر کی قیمت میں اضافے نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی بجائے کمزور بنا دیا۔مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے ،حکومتی مدت میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں مگر جنرل انتخابات 2013 سے قبل مسلم لیگ (ن) نے جو عوام سے وعدہ کیے وہ جوں کے توں کھڑے ہیں، ڈالر کی قیمت میں اضافے میں ملکی معیثت پر جو بوجھ بڑھایا گیا ہے اس کا خمیازہ کون بھگتے گا۔

چند ماہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت ختم ہوجائے گاجس کے بعد الیکشن کمیشن جنرل انتخابات کروائے گی ،مگر ڈالرکی قیمت بڑھنے سے جو ملکی قرضے میں اضافہ ہوا اس پر کوئی توجہ نہیں د ی جائے گی جس کے باعث نئے بجٹ میں عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لاگو کیے جائے گیں،مگر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو ملکی معثیت کیلئے مفید سمجھنا ایک جھوٹ ہے ،ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث پاکستان پر لدے قرضے کے بوجھ میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے دوسری اس کے باعث ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ ہوگا ، ملکی معیثت کو مستحکم اور مضبوط بنانے کیلئے جب تک ایک مستحکم لائحہ عمل نہ تیار کیا گیا اس وقت تک ایسا سوچنا سراسر غلط ہے۔

ڈالر کی قیمت کمی کرکے ہی ملکی معیثت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے، آج ڈالر کی قیمت116 روپے تک پہنچ گئی، کہیں تو ایسے انکشافات سننے کو مل رہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کے اضافہ میں موجودہ حکومتی ارکان ملوث ہے ،سوال یہ پیدا ہے ہوتا ہے کہ کیا ڈالر کی قیمت میں اضافہ سیاسی انتشار ہے یا پھر کچھ اور ؟ ہر سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے تو یہی سوچتا ہے کہ ملکی معملات ٹھیک ہے مسائل میں اضافہ حکومتی عدم دلچسپی یا کسی اور معمولی کوتاہی کی وجہ ہے میں اقتدار میں آکر مسائل حل کر دونگا مگر اقتدار میں آکر وہ کیا کریں گے جب مسائل زیادہ اور آمدن کم ہو گی ،ہر حکومت ایک نئے منشور اور ویژن کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے مگر آمدنی کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہر حکومت کی ترجیح ہی غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوتی ہے مگر حکومت وہاں پر کیا کرے جہاں پر ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث آئے سال پاکستان پر قرضہ کے حجم میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

عوام پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں تاکہ پاکستان کو قرضہ سے پاک کیا جائے مگر وہاں حکومت کیا کرے جبکہ ڈالر کی قیمت بڑھ جائے گی تو آئے روز قرضے ادا کرنے کے باوجود قرضہ کے حجم بڑھتا چلا جارہا ہے ، ایک معمولی اندازے کے مطابق عوام سے وصول کئے جانیوالے ٹیکس کے تقریبا ً 60 فیصد تو قرضے میں ادا کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود وہ قرضہ آج تک ختم نہ ہوسکا ہے، ہماری کرنسی دنیا میں ڈی گریڈ ہوتی جارہی ہے ، نئے نوٹ چھاپنے میں بھی وسائل استعمال ہورہے ہیں، ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث پاکستان پر قرضہ ایک دفعہ پھر بڑھ گیا، اگر حکومتی غیر ضروری ترقیاتی کام بڑھتے گئے تو دیگر ممالک سے قرضے لینے کے ساتھ ساتھ اندرونی قرضوں کو حجم بھی بڑھ جائے گا۔

حکومت اندرونی قرضوں کی شرح پر قابو پائے جس کے لئے ضروری ہے کہ نجکاری کے عمل کا ایک پیسہ تک بھی کسی اور کام میں استعمال نہ کیا جائے یہی ایک واحد اور آسان حل ہے جس پر عمل کرکے اندرونی قرضوں کے حجم کو قابو کرسکتے ہیں اور اندرونی قرضوں پر کنٹرول کیے بغیر بیرونی قرضوں کا خاتمہ ناممکن ہوکر رہ گیا ہے،یہی وجہ ہے گزشتہ ادارو میں ہر حکومت ہی ایک نئے عزم اور منشور کا اظہا رکرکے اقتدار میں آتی ہے مگر وسائل اور مسائل کو دیکھ کر ہر حکومت ہی ناکام ہوکررہ جاتی ہے اگر سے کیے ہوئے وعدوں کی طرف نظر دوڑائے تو پاکستان کو قرضے سے پاک کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے اور پاکستان کو قرضے سے پاک کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل جاری کرے تو عوام حکومتی پالیسی سمجھے بغیر ہی تنقید شروع کردیتے ہیں،اگر اس وقت پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے سے نہ نکالاگیا تو دنیا میں ہماری کرنسی ڈی گریڈ ہوکررہ جائے گی اور کسی صورت بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ نہ کرسکیں گے جس کے باعث پاکستان پر قرضے ہو حجم بڑھتا جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل انتخابات کے دوران کامیاب ہونیوالی پارٹی ایک مضبوط لائحہ عمل کے تحت پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے سے نکالے جسکے بعد ہی ہم دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔

Pir Toqeer Ramzan

Pir Toqeer Ramzan

تحریر : پیر توقیر رمضان