تحریر : میر افسر امان اسلام میں شہید کا بڑا رتبہ ہے۔ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے” اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہید کیے گئے، انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نذدیک وہ زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے ” سورة آل عمران (١٦٩)۔ قرآن شریف میں شہید کا انبیائ، صدّیقیقء اور صالحین کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے” اللہ نے جن پر انعام فرمایا،یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہدا اور صالحین”سورة النسائ(٧٠)۔محمد خالد متین صاحب جو تحفظ ناموسِ رسالت ۖ کے نامور سپاہی ہیں۔ انہوں نے مہربانی فرماتے ہوئے اپنی تازہ کتاب( شہیدوں کے سردار سید الشہدا سیدناحضرت حمزہ ) عنایت فرمائی۔ اس کتاب کے پہلے آدھے حصہ میں نثر اور باقی آدھے حصہ میں نظم، عرب ،دنیا اور پاکستان کے مایا ناز شعرء نے اپنے شعروں میں حضرت حمزہ کی بہادری کے قصے، حقیدت و احترام سے بیان کیے ہیں۔ہم نے اس کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔انہوں نے بڑی عرق ریزی سے، مستند سیرت و فضائل اور شجاعت و شہادت پر مبنی ایمان پرور اور ایقان افروز کتاب تالیف کی ہے۔حضرت حمزہ کو اپنی کتاب کے ٹائٹل پر اوّلین مجاحد ِتحفظ ناموس ِرسالت لکھا ہے۔اس کے سبب میں وہ تاریخ کا مشہور واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ یہ رسالت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے کہ ابوالحکم عمرو بن ہشام( ابوجہل) نے رسولۖ اللہ کے سر پر پتھر مارا۔ جس سے آپۖ کے سر سے خون جاری ہو گیا۔ اس کا زیادتی کا جب رسولۖ اللہ کے چچا حضرت حمزہ اسد اللہ و اسد الرسولۖکو پتہ چلا،تو صحن حرم میںدوستوں کے ساتھ بیٹھے ابوجہل کے سر پراپنی کمان اس زور سے ماری کہ اس کے سر سے بھی خون جاری ہو گیا۔ اس طرح ابو جہل سے رسولۖ اللہ سے زیادتی کا بدلہ لیا۔ جب ابو جہل سے رسولۖ اللہ کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیا تو اعلانیہ کہا کہ، قریش کے لوگوں میںحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو گیا ہوں۔اگر طاقت ہے تو میرا مقابلہ کر کے دیکھو؟حضرت حمزہ رسولۖ اللہ کے چچا اور قریشی عاشمی ہیں۔ رسولۖ اللہ نے ان کو”سید الشہدا” کا لقب اور اسداللہ اور اسد الرسولۖ کا دلنواز خطاب بھی عطا کیا۔ آپ کا شمار السابقون الاولون اور مہاجرین میں ہوتا ہے۔ قرآن کے مطابق سابقون الاولون وہ ہیں جن کی فضیلت بقیہ پوری امت اور بعد میں اسلام لانے والوں کہیں زیادہ ہے۔
اسلام لانے سے پہلے حضرت حمزہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے رزہ پہنتے تھے۔ مگر جب ایمان لائے تو موت کا خوف جانے لگا اور زرہ پہننی چھوڑ دی۔رسول ۖ اللہ نے اللہ کی رہ میںپہلے جن مجائدین کو روانہ کیا کرتے، ان کے سپہ سالار حضرت حمزہ ہوتے تھے۔ جب رسولۖ اللہ نے مدینہ میں پہرہ داری کا نظام قائم کیا تو حضرت حمزہ نے پہرہ داری میں رضا کارانہ ذمہ داری ادا کی۔ اس طرح رسولۖ اللہ مدینہ میں اکثر جنگی مہمات میں حضرت حمزہ کو امیر مقرر کیا کرتے تھے۔ رسولۖ اللہ لشکر کاجھنڈا بھی اکثر حضرت حمزہ کے ہاتھ میں دیتے تھے جو بہت بڑا اعزاز ہے ۔ اسی طرح غزوہ، وہ وان یا غزوہ ابوا،غزوہ بواط، غزوہ ذوالعشیرہ،غزوہ کدر،غزوہ بدر اور غزوہ بنو قینقاع میں رسولۖاللہ نے اسلامی فوج کا پرچم حضرت حمزہ کو عطا فرمایا تھا۔ غزوہ بدر میں جب عام جنگ سے پہلے، انفرادی مقابلے کے لیے ،کفار کی طرف سے، عتبہ بن ربیعہ ،اس کا بھائی شبیہ ربیعہ اور بیٹا ولید بن رعتبہ تلواریں لہراتے ہوئے میدان میں نکلے۔ تو تین انصار جانباز، عوف بن حارث ، معاذ بن حارث اور معوذ بن حارث مقابلے کے لیے سامنے آئے۔جب قریش کو معلوم ہوا کہ یہ مدینہ کے باشندے ہیں ۔توعتبہ نے پکار کر کہا” اے محمدۖ یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں، ہماری قوم اورٹکر کے لوگوں کو ہمارے مقابلے پر بھیجو”اس پر حضرت محمد صلہ اللہ علیہ و سلم نے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث کو حکم دیا ” جائو ان لوگوں سے مقابلہ کرو”حضرت حمزہ نے غزوہ بدر میں کئی مشرکین کو جہنم رسید کیا۔ ان میں قریش کے سردار جبیربن مطعم کا چچا اور ابوسفیان کی بیوی ہند کا باپ عتبہ بھی شامل تھا۔
رسولۖ اللہ غزوہ اُحد مدینہ کے اندر قلعہ بند رہ کر لڑنا چاہتے تھے۔اُس وقت حضرت حمزہ اور دوسرے اصحاب کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے رسولۖ اللہ نے مدینہ سے باہر نکل کر اُحد کے مقام پر کفار مکہ سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔محمد متین خالد صاحب نے اپنی کتاب میںامام المجائدین کا کیا نقشہ کھینچا ہے ۔حوالہ(سیرت حلیہ، طبقات ابن سعد) رسولۖ اللہ کو غزوہ اُحد کے وقت، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم ،دونوں نے عماہ بندھوایا ۔ پوشاک زیب تن کروائی۔ پھر دو زریں پہنائیں۔پشت مبارک کوچمڑے کے پٹکے سے کسا۔جس کے بعد آپ ۖ لوگوں کے سامنے اس حالت میں تشریف لائے کہ، گردن کی ایک طرف تلوار کا پرتلہ تھا، دوسری طرف کمان، پشت پر ترکش، اور دست مبارک میں نیزہ۔جب میدان جنگ میں مجائدین کی صفیں درست فرما رہے تھے تو سر مبارک پر خود تھا۔ کیا شان ہے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم ،امام المجائدین کی۔ محمد متین خالد صاحب نے اس موقعہ پر (ر) میجر جنرل اکبر خان کی کتاب ” حدیث دفاع” کا بھی ذکر کیا ہے جس میں میجر جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ رسولۖ اللہ ایک مایہ ناز پیدائشی جرنیل تھے۔آپۖ بہترین دفاعی منصوبہ ساز اور فن سپہ گری کے امام تھے جن کا ایک ایک غزوہ ان کی عسکری مہارت و قابلیت کا زندہ ثبوت ہے۔ہم توکہتے ہیں(راقم) جناب !حضرت محمد ۖ اللہ کے نبی اور پیغمبر ۖتھے۔ ساری جنگی اسکیمیںاللہ کی ہدایت پر ترتیب دیتے تھے۔ جنگی حکمت عملی کے تحت ، اُحد کی لڑائی کے وقت رسولۖ اللہ نے میدان جنگ کی جگہ کسی کو نہیں بتاتی تھی۔جب کوچ کیا تو بھی معروف راستے سے اُحد کی طرف جانے کے بجائے جنوب کی طرف چلے اور دیار بنی ظفر کی سمت باغات یعنی مشرق کی طرف چلتے گئے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اس جنگی چال کو نہیں سمجھ سکا اور کہا ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر واپس مدینہ چلا گیا۔ رسولۖ اللہ کی بہترین جنگی اسکیم کے طور پر کفار کے عقب میں جبل اُحد اور سامنے جبل عینین تھا۔ اور دوسری طرف اسلامی فوجیں تھیں۔ جہاں بھی رسولۖ اللہ نے حضرت حمزہ کو مقدمہ الجیش مقرر کیا۔ یعنی میدان جنگ میں سب سے آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا دستہ۔ جیسے پاکستانی فوج کی ایس ایس جی۔(اسپیشل سروسس گروپ )۔حضرت حمزہ کی دھاڑ، چنگھاڑ اور وار کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ دودستی تلوارچلاتے ہوئے ،بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ ان کے سامنے بڑے بڑے سورما پیٹھ دکھا رہے تھے۔ حضرت حمزہ نے چالیس بڑے بڑے نامور سومائوں کو قتل کیا، کل ستر کفار قتل ہوئے۔
ستر کفار کو قیدی بنایا گیا۔ جب بدر میں شکست کا بدلہ لینے، اُحد کی لڑائی کرنے مکہ کے قریش آنے لگے تو، جبیر بن مطعم نے اپنے حبشی غلام وحشی بن حرب کو کہا کہ اگر تو حضرت حمزہ کو قتل کرے گا تو میں تمھیں آزاد کر دوں گا۔ ہند نے کہا کہ اگر میرے باپ کا بدلہ ،حضرت حمزہ سے لے گا تو میںتمھیں اپنا سارا زیور دے دوں گی۔غزوہ اُحد میں اسی حبشی غلام، وحشی بن حرب جو کہ گھات لگا کر بیٹھا ہوا تھا، کے نیزہ لگنے سے حضرت حمزہ شہید ہوئے تھے۔کفار مکہ نے حضرت حمزہ کو کسی بہادری سے شہید نہیں کیا بلکہ کرایہ کے قاتل سے، سازش سے، چھپ کر شہیدکیا۔شفیق چچا کا جسد اطہر دیکھ کر آپۖ اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔اللہ کی توحید کے اعلان اور محبت رسالتۖ کے جرم میں حضرت حمزہ کی لاش کا مثلہ کر دیا گیا۔ حضرت جابر سے راویت کہ رسولۖ اللہ نے فرمایا ” قیامت کے دن اللہ کے نذدیک تمام شہیدوں کے سردار حمزہ ہوں گے۔( مستدرک حاکم)
سیرت نگاروں کے مطابق غزوہ اُحد میں ستر مسلمان شہید ہوئے۔حضرت حمزہ کی ایک بارپہلے نماز جنازہ پرھائی گئی پھر ہر شہید کے ساتھ بھی حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ اس طرح ستر بارنماز جنازہ پڑھائی گئی۔حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ رسولۖاللہ نے شہدا اُحد کے شہید ہونے کے آٹھ برس بعد نماز جنازہ ادا کی۔نماز ادا کرنے کے بعد آپ ۖ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا: میں تمھارا پیشرو ہوں۔ میں تم پر گواہ ہوں۔مجھے اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کی تم میرے بعد شرک کرنے لگ جائو گے۔لیکن مجھے یہ خوف ہے کی تم ایک دوسرے کے ساتھ حسد کرنے لگو گے۔صحیح بخاری حدیث ١٣٤٤۔صحیح مسلم حدیث ٢٢٩٦۔ سنن نسائی حدیث ١٩٥٤۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد کی توفیق عطا فرمائے۔ محمد متین خالد صاحب کتاب کے آخر میں فرماتے ہیں کہ بغیر سند کے،حضرت امیر حمزہ کے قصے مختلف کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں۔جن کا حضرت حمزہ سے کوئی تعلق نہیں۔حضرت حمزہ رسولۖ اللہ کے نذدیک اسد اللہ اسد الررسولۖ ہیں ۔ ان پر ملت اسلامیہ فخر کرتی رہے گی۔