تحریر : عبدالجبار خان دریشک نوبیل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات پال کرگمین نے ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر کہا تھا ‘ امریکا میں واضح طور پر حکمرانی نااہل ترین شخص کے ہاتھ میں آئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ایسی سخت گیر پالیسی اپنائی ہیں جس کے لیے امریکی انتظامیہ کو بھی پریشانی اٹھانا پڑی رہی ہے ، ان کے قریب رہنے والے صحافی مائیکل وولف نے اپنی کتاب “فائر اینڈ فیوری” میں صدر ٹرمپ کے بارے میں ہوش روبا انکشافات کیے ہیں حتی کہ ٹرمپ کو نفسیاتی مریض تک کہا گیا ، خواتین کے متعلق ٹرمپ کے بیان اور ان کے رویہ سے بھی ٹرمپ کی شخصیت کے منفی پہلو کی عکاسی ہوتی رہی ہے ۔ ٹرمپ نے آتے ہی سات اسلامی ممالک کے باشندوں کو امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، اس کے علاوہ ان کی خارجہ پالیسی کے عجیب و غریب خیالات عالمی رہنماو ¿ں کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے اور اس دیوار کی قیمت بھی میکسیکو سے وصول کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مگر سب سے زیادہ تشویش ناک بات امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ فیصلہ واشنگٹن کی طویل عرصے سے قائم پالیسی سے انحراف ہوگا۔
امریکا کی طرف روس پر اس بات کا الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ روس امریکہ کے انتخابات میں اثر انداز ہوا ہے۔ امریکہ مشرق وسطی میں اپنا اثر برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ قربت بڑھا رہا ہے ،دوسری طرف شام میں روس اور ترکی کی مداخلت کو روکنے کے لیے سر توڑ کوشش میں لگا ہوا ہے۔ امریکا ایران پر مزید پابندیوں کے ساتھ ٹرمپ کی بیان بازی میں بھی تیزی آ رہی ہے ایران پر وار کرنے کے لیے جس کندے کی امریکہ کو تلاش تھی اسے وہ سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلیمان کی صورت میں مل گیا ہے ، حالیہ امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد ایران کے لیے ان کی بیان بازی میں تیزی آ گئی ہے ، جبکہ ایران اور سعودی عرب میں مزید تناو ¿ پیدا ہوگا ، یمن میں خواثی باغیوں کا سعودی عرب پر میزائل حملے اس تناو ¿ کا باعث بنیں گے۔ جبکہ اس قبل سعودی شہزادہ محمد بن سلیمان امریکہ کے طویل دور کے موقعہ پر امریکہ تھے جہاں انہوں امریکہ کے ساتھ بڑے دفاعی سمجھوتے کیے ہیں سعودی عرب امریکہ سے بنیادی سمجھوتے میں 67 کروڑ ڈالر مالیت کے ٹینک شکن میزائلوں کے سودے شامل ہیں۔ امریکا نے سمجھوتے کے ضمن میں سعودی عرب کو 6600 ٹاو ¿ میزائل فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ دیگر معاہدوں میں ہیلی کاپٹروں کی مرمت اور دیکھ بھال شامل ہے امریکا نے اسلحے کی اس فروخت کی تیاریاں صدر ٹرمپ کے گزشتہ سال مئی میں سعودی عرب کے دورے کے وقت سے شروع کر دی تھیں۔ سعودی وزارت خارجہ کے مطابق ان امور میں سعودی ویڑن 2030 کے تحت تزویراتی تعاون اور دو طرفہ شراکت داری کو گہرا بنانا ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور شدت پسندی کا انسداد اور خطّے کے امن و استحکام کو مضبوط بنانا شامل ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سخت پالیسوں کو چلانے کے لیے سب پہلے وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن کو عہدے سے فارغ کر دیا ہے۔ اور ان کی جگہ سی ا?ئی اے چیف مائیک پومپیوکو عہدہ سونپ دیا جبکہ اب قومی سلامتی کیلئے اپنے مشیر جنرل ڈاکٹر مک ماسٹر کو بھی برطرف کردیا۔ انکی جگہ جان بولٹن کو مشیر برائے قومی سلامتی لگا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے معاملے میں خاصے سخت گیر ہیں اور ہر صورت اپنی بات منوانے کے خواں رہتے ہیں۔ اسی بناپر صدر ٹرمپ نے 14 ماہ کے اقتدار میں اپنی ٹیم کےکئی ارکان کو برطرف کیا جبکہ انہوں نے تیسری مرتبہ قومی سلامتی کے مشیر تبدیل کرتے ہوئے جان بولٹن اپنا مشیر مقرر کیا
بولٹن ایک قدامت پسند، قوم پرست، جنگجو صفت، اسلام مخالف شخص ہے بولٹن شمالی کوریا کے بارے میں بہت سخت موقف رکھتا ہے بولٹن ایران اور شمالی کوریا پر حملے کے حق میں ہیں۔ وہ ماضی میں صدام و قذافی سے چھٹکارا،مصر کی اخوانی حکومت کے خاتمے اور غزہ میں حماس اقتدار کو مفلوج کرنے کی مہم بھی کامیابی سے سرانجام دے چکے ہیں ، وہ ایران کی دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق کے زبردست حامی ہیں۔ مجاہدین خلق بم حملوں میں اعلیٰ پائے کے ایرانی سیاستدانوں سمیت ہزاروں ایرانیوں قتل کر چکے ہیں۔ ایران پر مزید پابندیاں سخت کرنے کی خاطر امریکا نے حال ہی میں نو ایرانی باشندوں اور ایک ایرانی کمپنی کو امریکا سمیت دنیا بھر میں یونیورسٹیوں اور درجنوں کمپنیوں کا ڈیٹا ہیک کرنے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ امریکا نے اپنے الزام میں یہ بھی کہا کہ ایرانی افراد اور “مابنا انسٹیٹیوٹ” نامی کمپنی نے سائبر حملے ایران اور بالخصوص ایرانی عسکری سپاہ اسلامی پاسداران انقلاب کے ایما پر کیے۔ جبکہ ان الزامات کے دفاع میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام غاسمی نے امریکی الزامات کی مذمت کی اور کہا یہ الزامات بے بنیاد قرار دیے ہیں غاسمی نے امریکا کو الزامات کا ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ غاسمی کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن حکومت ثبوت مہیا نہیں کرتی تو ان الزامات کو ایرانیوں کی سائنسی ترقی روکنے کی ایک چال سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جائے گا۔
صدر ٹرمپ جہاں شمالی کوریا اور ایران پر اقتصادی پابندیاں مزید بڑھانے کا خواہش مند ہے وہیں اپنے حریف روس سے بھی خوف زدہ ہے پوٹن کے چوتھی مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کی بوکھلاٹ میں آضافہ ہو گیا ہے، روس اس وقت اسلحہ کی دوڑ اور ٹیکنالوجی میں کافی حد تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ چکا ہے ، روس میں انتخابات سے قبل ایک میزائل کا تجربہ کیا گیا جو کہ آواز کی رفتار سے اپنے ہدف کی طرف سفر کرتا ہے۔ امریکا کسی نہ کسی طرح روس کو سفارتی سطح پر تنہاہ کرنا چاہتا ہے اور چین کی اقتصادی ترقی کو روکنا چاہتا ہے۔
روس کو سفارتی طور پر تنہاہ کرنے کا موقع امریکہ کو برطانیہ میں چھیا سٹھ سالہ سابق روسی جاسوس سیر گئی سکرپل اور ان کی 33 سالہ بیٹی کو 4 مارچ کو کیمیائی حملے میں ہلاک ہونے کے بعد ملا۔ برطانیہ نے اس ہلاکت میں روس کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور روس کے سفارت کاروں پر جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے انہیں ملک سے چلے جانے کا حکم سنایا ہے ، جبکہ امریکہ نے اس سے پہلے ایک اقتصادی چال چلی صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمد پر بھاری ٹیکس عائد کیے جو دراصل چین کا راستہ روکنے کے لیے ایسا اقدام اٹھا گیا، جبکہ اب اس ٹیکس میں سوائے چین کے یورپی ممالک کو چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یورپی ممالک کو چھوٹ دینے کے پیچھے کے محرکات یوں سمجھ آتے ہیں یورپی ممالک نے برطانیہ کی طرح روس کے سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا کہے دیا ہے ، یورپی یونین کے چودہ رکن ریاستوں کا روس کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرنا کا اعلان کرنا ، ان میں سے اکثر ممالک امریکہ سے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے والے ہیں۔ ان چودہ رکن ممالک کو چھوٹ ملنا اور دوسری طرف یورپی ممالک کا روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا کہنا دونوں کی ٹائمنگ برابر ہے۔ اس تناظر میں روس کے لیے ایک اور پریشانی یہ پیدا ہو گی کیونکہ 14 جون 2018 سے روس میں فٹبال ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے جس کے میچز روس کے گیارہ شہروں میں منقعد ہوں گے، ورلڈ کپ سے پہلے یورپی ممالک سے روس کے سفارتی تعلقات متاثر ہونے کی وجہ سے روس کے لیے مزید تشویش بڑھ گئی ہے ساتھ ہی امریکہ نے بھی ساٹھ روسی سفارت کاروں کی بدخلی کا بھی حکم جاری کردیا ہے۔
چین نے بھی امریکا کے اقدامات کے جواب میں کہا ہے کہ امریکا کی تجارتی جنگ کا نقصان اقوام عالم کو ہو گا۔ دوسری جانب اعداد و شمار کے مطابق امریکی اعلان کے باوجود چین کی تجارتی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے سخت الفاظ میں امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ ا ±ن کا ملک امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی تجارتی جنگ کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر کے اسٹیل اور ایلومینیم پر درآمدی ٹیکسوں کی شرح میں آضافے پر عالمی سطح پر تشویش سامنے آ چکی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا درآمد کیے جانے والے چینی اسٹیل اور ایلومینیم کی مقدار وسیع امریکی کھپت میں بہت معمولی ہے۔ امریکا یہ دونوں اہم دھاتیں کئی اور ممالک سے زیادہ مقدار میں درآمد کرتا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا اگر دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا بڑا ملک ہے لیکن اب چین بھی اسلحہ سازی کی صنعت میں امریکا کا مقابلہ کر رہا ہے امریکا کو اس معاملے میں چین اور روس سے کافی تشویش ہے ۔ صدر ٹرمپ کی سخت پالیسوں جنگی جنون کی وجہ سے امریکی معیشت متاثر ہورہی ہے ایک طرف امریکا کے اندر نسلی تعصب میں آضافہ ہورہا ہے اور ذہنی ہجان میں مبتلا امریکی آئے روز اپنی پبلک پر فائرنگ کر کے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں ایسے واقعات خاص کر سکولوں میں زیادہ ہو رہے ہیں امریکہ میں گنز کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، جس کی مخالفت میں گزشتہ آٹھ سو مکامات پر لاکھوں امریکیوں بے احتجاج کیا۔
امریکا کی معیشت کا یہ حال ہے کہ اس کا بجٹ 5 مہنیے اور 23 دن کی تاخیر سے منظور ہوا ہے، اخراجات کا مجموعی حجم 1300 ارب ڈالر ہے جس میں 700 ارب ڈالر دفاع کیلئے مختص کئے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 61 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ جبکہ 65 ارب ڈالر امریکہ سے باہر فوجی آپریشن کے لئے رکھے گئے ہیں، جس کا بڑا حصہ افغان جنگ میں خرچ کیا جائیگا۔ امریکا میں اب منظور ہونے والا بجٹ کا بل 2300 صفحات پر مشتمل ہے ، جو کہ امریکہ کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہے۔ محتاط تخمینے کے مطابق رواں مالی سال میں امریکی حکومت کو 1000 ارب ڈالر کا خسارہ ہوگا۔ نئے خسارے کا بڑا حصہ چین سے قرض لے کر پورا کیا جائیگا۔ چین کا قرض امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بانڈز کی صورت میں ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس کے جواب میں چین کے سفیر نے عندیہ دیا کہ شائد بیجنگ مزید یہ بانڈز نہ خریدے۔ اگر ایسا ہوا تو امریکہ کو چین کے انکار کے بعد نئے گاہک تلاش کرنے ہونگے تو دوسری طرف بانڈز کی فروخت کے لئے شرح سود کو مزید پر کشش بنانا ہو گا۔
اس ساری صورت حال اور تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کا بہت سارے محاذوں پر ایک ساتھ لڑنا اب اس لیے دشوار ہوتا جا رہا ہے چین اور روس تو امریکہ سے مقابلے کے لیے تیار نظر آتے ہیں جن کا اتحاد پوری دنیا کو نظر آرہا ہے اس کے علاوہ امریکا کا پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی ڈومور کا مطالبہ ، افغان جنگ ، ایران اور شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا حربہ بھی ساتھ ساتھ استعمال کر رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو کسی طرح جنگ سے دور رکھنے کے لیے ایران اور سعودی عرب کو آمنے سامنے لانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دونوں ممالک کے اتحادی اپنے اپنے ملک کے ساتھ ہمدردی میں کھڑے ہوجائیں اور وہ باہر سے صرف تماشہ دیکھ سکے اور اسے مزید وقت کے لیے راحت مل جائے لیکن یہ امریکہ کے سارے حربے اب آخری لگتے ہیں اس کے بعد اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔