فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ فِي شَهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَىُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلْ بِهِ الْجَنَّةَ وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول !
ربیعہ قبیلہ کا وفد آپﷺ کو ملنے آیا اور کہا اس نے کہ “”ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے “”
پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں سبحان اللہ اسلام سیکھنے کیلئے قبائل ان چار مہینوں کا انتظار کرتے تھے جو رجب سمیت 4 مہینے تھے۔
حالی کے بقول وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی
ان چار حرمت والے مہینوں میں آتے آپﷺ سے چند اہم باتیں سنتے یادادشت میں محفوظ کرتے اور واپس جا کر اپنے قبیلے والوں کو سنا کر جنت میں داخلے کی توقع رکھتے ۔ آخر وہ حرمت کے ان چار مہینوں میں ہی سفر کیوں کرتے تھے؟ یہ حرمت کے مہینے کیا ہیں؟ قبل اسلام اہل عرب جنگجو قوم تھے مختلف قبائل میں بٹے حسب نسب پر فخر کرنے والے اور بات بات پر تلواریں نکال کر دہائیوں تک معرکے بپا کرنے والے لوگ ۔ صحرائی علاقہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک میں جا کر اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی تجارت کر کے یہاں لاتے۔
گزر بسر کا بڑا سہارا تجارت تھی جو زیادہ تر شام سے کی جاتی تھی سال کے 8 مہینے پھر انہی پرگذارہ کیا جاتا تھا ۔
ہر طرف سے حملہ آور تاک میں رہتے کہیں سفر میں خوں خرابہ نہ ہو اس ڈر سے یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں رہنا محفوظ سمجھتے تھے ۔
حرمت کے مہینے ابتداء سے ہی مقرر ہیں جن میں رجب ذی الحج ذوالقعدہ محرم شامل ہیں۔ ان مہینوں کا اتنا احترام کیا جاتا تھا کہ اگر باپ کا قاتل بھی کہیں سامنے آجاتا تو اس پر بھی تلوار نہیں اٹھائی جاتی تھی۔
ان جاہل قبائل کایہ حال تھا جن کو فہم فراست حکمت چھو کر بھی نہیں گزری تھی ان مہینوں میں لڑائی جھگڑے سے کیونکہ ممانعت تھی اس لئے امن کا دور دورہ رہتا تھا ۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ان چار مہینوں میں زندگی بے خوف اور محفوظ تھی۔ آج ہمارے لئے جدید مہینوں کی فہرست مقبول ہو گئ اسی لئے آج ہم جاہلیت کے دور سے زیادہ جاہل ہو گئے ہر قید و بند سے دور خود مختار اللہ کے خوف سے آزاد نبی ﷺ کے اصولوں کے منحرف ہو گئے۔
اگر حرمت کے کسی مہینے میں جنگ ہو رہی ہے تو کہیں سے آواز کبھی نہیں سنی کہ اس مہینے میں جنگ و جدل جائز نہیں لہٰذا بند کرو۔
12 مہینے کی دوڑ ایسی بھگانے لگی انسان کو وہ ہر حد ہر پابندی کو روندتا ہوا بے سکون ہو کر بے رحم ہو گیا ۔ اللہ کا احترام بھول کر دنیاوی خداؤں کے بچھائے ہوئے جال میں یوں الجھا ہے کہ حرمت اور احترام سے عاری ہو کر اپنا رعب ہی کھو بیٹھا ۔
کل کے وہ جاہل لوگ جنہیں بدو کہا جاتا تھا وہ ان 4 مہینوں کا احترام قائم رکھتے تھے آج جب علم کا ذکر ہر طرف ہے ایسے میں ذہنی جہالت کتنی طاقتور ہے کہ کسی کو نہ مہینے یاد ہیں نہ ان کی حرمت نہ اُسے توڑتے ہوئے اللہ کا ڈر ۔
ماخذ اگر قرآن ہوتا اور عمل حدیث سنت سے متصل ہوتے تو آج بھی دین طاقتور ہوتا ۔ ایمان کی بہترین تعریف روم کے بادشاہ عظیم ہرقل نے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی بہترین پیرائے میں ایسے کی کہ صحیح بخاری بدء الوحی حدیث 6 “” ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے”” اس سال بھی ماہ رجب کا آغاز ہو گیا مبارکبادیں وصول کی جا رہی ہیں سب کچھ کہا جا رہا ہے سب کچھ سنا جا رہا مگر نہیں بتایا جا رہا تو یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں ہم سب کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس مہینے میں اپنے آپ پر کونسی پابندی لاگو کی؟ کیا ہم نے اپنے اپنے طرز عمل پر غور کر کے اپنی ناراضگیاں ختم کیں؟ کیا ہم نے تحمل اور احترام کی تھیوری سمجھتے ہوئے اپنے جھگڑے ختم کئے کیا ہم نے اپنی زبانوں کو حد میں رکھنے کی کوشش کی۔ کیا حدود کے احترام کیلئے ہم نے اپنے قرب و جوار میں اس مہینے کی حقیقی افادیت اور احترام بیان کیا۔ اپنے عمل کو اللہ کے قانون کے تابع کیا؟ اگر ہم سب اس مہینے کی حرمت کو بہتر انداز میں سمجھ لیں تو یقینی طور پے معاشرہ ماضی کے عرب معاشرے کی طرح کم سے کم ان چار مہینوں میں تو امن و امان کا منظر پیش کر سکتے ہیں ان مہینوں میں قتل و غارت گری اور الزام تراشی سے محفوظ ماحول سبحان اللہ کیا نظارہ دے گا ۔ ہم کیسے جدت پسند ہیں کہ ان جاہلوں سے مات کھا گئے جو کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اللہ کے ساتھ مقرر ہوئے وعدے کے پاسبان تھے ممالک مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہاں ہم نے یہ آواز اٹھائی کہ رجب شروع ہو گیا ہے ہرقسم کی جنگ بند ۔ ماہ رجب کو اس سے منسلک تقدس کی وجہ سے بہت اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس مہینے کا ان مفروضوں ے دور دور تک کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی مہینے میں معراج ہوئی تھی اور آپﷺ براق نامی سواری پر جو خچر سے چھوٹا ا ور گدھے سے بڑا تھا اس پر سوار ہو کر نبی پاکﷺ اللہ رب العزت سے ساتویں آسمان پر ملاقات کرنے گئے تھے ۔ یہاں آپکی ملاقات پہلے سے ساتویں آسمان تک جلیل القدر انبیاء ؑ سے کروائی گئی اور یہیں آپکو نمازوں کا تحفہ عطا کیا گیا ۔ جہان عطا اتنی بڑی تھی وہاں امت کیلئے فکر کا لمحہ بھی ساتھ دکھایاگیا جہنم کے کچھ مناظر اللہ اکبر جن میں خواتین کی تعداد کا کثیر ہونا بسبب ان کی شوہر سے نافرمانی کے باعث لمحہ فکریہ ہے ہم سب بہنوں کیلیۓ ۔ ہمیں غیر اسلامی رسومات چھوڑ کر ماہ رجب کو اس سوچ سے گزارنا چاہیے کہ کہیں ہماری زبان ہمیں بھی اسی جہنم کا حصہ نہ بنا دے جس کا نظارہ آپﷺ کو کروایا گیا تھا نفلی روزوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ توبہ استغفار کرتے ہوئے اس مہینے کو گزاریں۔ پیارے نبیﷺ کی حیات طیبہ کے ہر گوشے پر نظر رکھنی ہے کہ کہاں ماہ رجب کی فضیلت میں کھانے پکانے خاص طور سے حلوہ پوری کھیر وغیرہ کی رسم سراسر مفروضہ ہے۔
جہاد علم یہی ہے کہ ماضی کے مفروضات کو مسترد کر کے اسلام کے اصل حقائق کو با شعور ہو کر محکم انداز میں پڑہیں اور ان پر عمل کو زندگی میں شامل کر کے وہ اسلام اپنے وجود سے سامنے لائیں جو اسلام کا رخ روشن ہے جو اُس اسلام کوظاہر کرے جو اللہ کا ہمارے لئے انتخاب ہے وما علینا الا البلاغ المبین