تحریر : پروفیسر رفعت مظہر کپتان تو پہلے ہی تھا اب آصف زرداری نے بھی ”کَج کلاہوں” کو اپنا قبلہ و کعبہ تسلیم کر لیا۔ بلوچستان اِس کی واضح علامت جہاں وہی ہوا جو کَج کلاہوں نے چاہا۔ نوازلیگ کی حکومت کو گھر بھیجا گیا، سینٹ الیکشن میں پہلے آزاد اُمیدوار منتخب کروائے گئے اور پھر ایک آزاد ہی کے سَر پر سینٹ کی چیئرمینی کا تاج سجا دیا گیا۔ یہ ناموسِ سیاست کا جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلالیکن ٹھہریے، یہ تو محض ٹریلر ہے، اصل پکچر تو ابھی باقی ہے جو 2018ء کے انتخابات میں ریلیز ہوگی۔ مُنہ ماری اور جوتا ماری جیسے نظارے تو قوم دیکھ چکی، اگلا مرحلہ (خُدانخواستہ) جوئے خوں کا ہے جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ ذمہ دار کون ہوگا؟۔ کیا زورآور ، سیاستدان ، ہبی رہنمائ، عدلیہ یا پھر حصّہ بقدرِ جُثہ؟۔ آصف زرداری کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ۔یقیناََ اُنہیں ادراک ہوگیا تھا کہ ”بادشاہ گروں” کے چرنوں میں ہی عافیت ہے۔ وہ اُٹھے تو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے دعوے کے ساتھ تھے لیکن ۔۔۔۔ لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔میاں نوازشریف اب اُنہیں ”چابی والے کھلونے” کہتے ہیں لیکن یہ الزام خود اُن کی ذات پہ بھی آتا ہے ۔ دراصل زورآور ایسا ہم رنگِ زمیں دام بچھاتے ہیںکہ پنچھیوں کی آتشِ شوق بھڑک اُٹھتی ہے اور وہ صید ہونے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں ۔ بھٹو کو ایوب خاں کا ”پَیرٹ” کہا جاتا تھااور جنرل ضیاء الحق میاں نوازشریف کو اپنی عمر لگ جانے کی دعائیں دیا کرتے تھے۔ عمران خاں پرویز مشرف کا جھنڈا اُٹھائے گلی گلی گھوما کرتے اور چودھری پرویز الٰہی ،پرویز مشرف کودَس بار وردی میں منتخب کروانے کے دعوے کیا کرتے۔ مقصد سبھی کا ایک، حصولِ اقتدار لیکن اب کے فضاؤں کی سرگوشیاں کچھ اور ہیں۔ جس مسندِ اقتدار کا حصول اُنہیں صبح ومسا بے چین رکھتا ہے، وہ ابھی دور ہے، بہت دور کہ صیاد ”مائنس تھری” کے فارمولے پر عمل پیرا ہیںجس کا پہلا شکار میاں نوازشریف بنے، اب عمران خاں اور آصف زرداری کی باری ہے۔ میاں شہبازشریف لاکھ افہام وتفہیم کی اپیلیں کریں، فیصلہ تو ہوچکا۔ جہاں قومی شعور کو گھُن لگ چکا ہو، وہاں ایسے فیصلے ہوا ہی کرتے ہیں۔ جوانانِ وطن کا یہ عالم کہ جستجو سے تہی، تلاشِ ذات سے بے نیاز اور مقاصد کی تخلیق سے بے پرواہ۔اُن میں جذب و جنوں ہے نہ درد وسوز۔ ایسے ہی جوانوں کے بارے میں اقبال نے بڑے دُکھ سے کہا تھا کہ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پَلا ہو کرگسوں میں اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی
کرگسوں میں گھِرے اقبال کے شاہیں اب ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کی بجائے ”میوزیکل کنسرٹ” کے شیدائی، رہنماؤں سے سیکھی غیرپارلیمانی زبان کا چسکا ،جس کا سوشل میڈیا پر بے محابہ استعمال۔ یہ مُردار خور کرگس ہی تو ہیں جو میرے وطن کے رَہبر ورَہنماء بنے بیٹھے ہیں، جنہیں مرغوب ہے تو فقط کرسیٔ اقتدار، مبّرا کوئی نہیں، سیاستدان نہ دین کو سرِبازار بدنام کرنے والے۔ غلیظ گالیاں بکنے والا تحریکِ لبّیک کا سربراہ خادم حسین رضوی مفرور قرار،جس کی گرفتاری کا حکم صادر ہوچکالیکن گرفتاری ناممکن کہ حکمرانوں میں اِس کی ہمت ہے نہ سَکت۔ اگر ہمت ہوتی تو وہ فیض آباد دھرنے کے دَوران اربوں روپے کی جائیداد تباہ کر پاتا نہ عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں کی توہین و تضحیک کر پاتا۔ اُس نے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار تک کو نہیں بخشا لیکن حیرت ہے کہ اُسے آج تک توہین عدالت کا نوٹس تک نہیں ملا۔ ِ تحریکِ لبیک کا مرکزی ناظمِ اعلیٰ کہتا ہے ” حکومت حالات خراب کر رہی ہے ۔ خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری سے فیض آباد معاہدہ سبوتاژ ہوگا۔ گارنٹی دینے والوں کو کردار ادا کرنا ہوگا”۔ سوال مگر یہ کہ اِس معاہدے پر عمل درآمد کی گارنٹی کس نے دی؟۔ کیا پاک فوج نے جس کے ایک محترم میجر جنرل صاحب کے اِس معاہدے پر دستخط ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر عدالت فوج کو خادم رضوی کی گرفتاری کا حکم دے جس نے یہ معاہدہ کروایا، حکمران بیچارے تو تب بھی بے بَس تھے اور اب بھی ہیںلیکن فوج کے ترجمان تو بہت پہلے ہی یہ وضاحت کر چکے کہ میجر جنرل صاحب نے بطور گواہ دستخط کیے تھے ،بطور” گارنٹر” نہیں۔ خادم رضوی کی گرفتاری تو بہت دور کی بات، حکمران تو آج تک اپنے ہی ایک کارندے (راؤا نوار)کوبھی گرفتار نہیں کر سکے جو نہ صرف نقیب اللہ محسود بلکہ دیگر کئی بے گناہوں کے قتل میں ملوث ہے۔ ”بابا رحمت ” کہتے ہیں ” اگر راؤ انوار پیش ہوگیا تو بچ جائے گاورنہ اُسے کہیں اور تحفظ نہیں ملے گا۔ عدالت یہ معلوم کرکے رہے گی کہ راؤ نواز کے سہولت کار کون لوگ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ راؤانوار کے سہولت کاروں کو سپریم کورٹ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر معلوم ہوا کہ کوئی سہولت کار ہے تو اُس کے خلاف بھی کاسخت کارروائی ہوگی”۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیاں راؤ انوار کی تلاش میں ہیں لیکن وہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ شاید وہ ایسے سہولت کاروں کی پناہ میں ہو جہاں جاتے ہوئے ہر کسی کے پَر جلتے ہوں۔ اِسی لیے آئی جی سندھ ہر پیشی پر اپنی بے بَسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
عدل کے اونچے ایوانوںکے باسیوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ”رعبِ عدل” ناتواں کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں یہ متنازع فیصلوں کا شاخسانہ تو نہیں؟۔ جولائی 17 سے اب تک کیے گئے فیصلے کیوں متنازع ہوئے اور عوام کی کثیر تعداد اِن فیصلوں کو ماننے سے انکاری کیوں ہے؟۔ پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ فیصلے تنقید وتنقیص کا نشانہ کیوں بن رہے ہیںاور میاں نوازشریف ہر اجتماع میں فیصلوں کو متنازع اور جانبدارانہ کیوں قرار دے رہے ہیں؟۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قومی درد سے معمور ہیں ،اِسی لیے تو بے چینی کے عالم میں جا بجا گھومتے رہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے متنازع فیصلوں کے لیے ”فُل کورٹ” تشکیل دے کر اِن پر نظرِ ثانی کی جا سکے؟۔ دَست بستہ عرض ہے کہ اگر افراتفری کا یہی عالم رہا تو پھر اظہرمِن الشمس کہ انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ پھر آنے والا مورخ دیگر اداروں کے ساتھ آپ کو بھی معاف نہیں کر پائے گا۔