تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکا کی جانب سے پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے کی پالیسی کے تسلسل میں اُن حساس معاملات کو بھی نشانہ بنانے کاباقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان کی امن کے قیام کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔ لیکن امریکا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے قیمتی ایٹمی اثاثوں کو اپنے ہدف تنقید کا نشانہ بناکر ایٹمی سپلائر گروپ کی رکنیت کے حصول میں رکائوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ امریکا، پاکستان کو اپنی پراکسی میں شامل نہ ہونے پر مسلسل دبائو کی پالیسی اختیار کئے بیٹھا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے جارحانہ بیانات اور مسلسل جانب دارانہ اقدامات کے بعد امریکا کا دبائو ڈالنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا۔ پاکستان کی جانب سے امن کی تمام کوششوں کو امریکی مفاداتی پالیسی نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ شدت پسندوں کے گڑھ و سہولت کاری ، انتہا پسندوں کے ہاتھوں ایٹمی اثاثے جانے کے الزامات ، ایٹمی ہتھیاروں کی طاقت میں غیر قانونی اضافے سمیت امریکا کے خود ساختہ الزامات نے پاک ۔ امریکا تعلقات میں مزید تلخی پیدا کردی ہے ۔ پاکستان اس وقت جن مالیاتی مسائل و بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کے مالیاتی بحران میں دقت آمیز دشواریاں ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا دبائو کو مزید بڑھانے کے لئے تمام ذرائع استعمال کررہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کی جانب سے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کی عسکری امداد پر مستقل پابندی ، نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرنے سمیت کئی سخت قسم پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہا ہے۔ ٹرمپ ڈاکٹرائن کا مقصد پاکستان کے خلاف سخت پابندیاں اور اپنی مقبوضہ کالونی بنانے کے لئے ہر قسم کا دبائو ڈالنا دراصل افغانستان میںمستقل فوجی چھائونی اور خطے پر اجارہ داری کے لئے فوجی اڈوں کی ضرورت کو مستقل بنانا ہے۔امریکا نے گزشتہ دنوں سات کمپنیوں پر جوہری آلات کی غیر محفوظ نقل و حرکت کے الزام پر پابندی عائد کردی ہے۔فہرست میں کل 23 کمپنیوں کا ذکر ہے جسے امریکی فیڈرل رجسٹرار نے شائع کیا ہے، جس میں پاکستانی 7 کمپنیوں سمیت 15 جنوبی سوڈان اور ایک سنگاپور کی کمپنی شامل ہے۔ امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کے بعد تمام 23 کمپنیاں عالمی سطح پر تجارت سے معذور رہیں گی۔ امریکا کے مطابق پاکستان کی 3 کمپنیاں اختر اینڈ منیر، پروفیشنٹ انجینئرز اور پرویز کمرشل ٹریڈنگ کمپنی (پی سی ٹی سی) پر جوہری مواد کی غیر محفوظ نقل و حرکت کے الزام میں پابند عائد کی گئی۔ ، امریکا سمجھتا ہے کہ ان کمپنیوں کی وجہ سے امریکا کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس وقت تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان نجی فرمز نے کون سے ایسے آلات فراہم یا غیر محفوظ نقل و حرکت کی ہے جس سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ پاکستانی وزرات خارجہ امریکا سے رابطے میں ہے کہ انہیں تفصیلات مہیا کیں جائیں ۔ تاحال ایسی کوئی فہرست اور تفصیلات امریکا نے پاکستان کو باقاعدہ فراہم نہیں کی ہے ۔ اس بنا پریہ خدشہ خارج از امکان نہیں ہے کہ امریکا کے اس فیصلے کے پس منظر میں واضح عزائم کچھ اور ہیں۔ دراصل ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو نیو کلیئر سپلائی گروپ میں شمولیت کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لئے بھی کوشش کررہا ہے اور اقوام متحدہ پر دبائو بڑھانے کی کوشش کررہا ہے کہ اس وقت سلامتی کونسل کی نشستوں میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی نمائندگی 20فیصد ہونی چاہیے ۔ جو کہ اس وقت8فیصد کے قریب ہے ، سلامتی کونسل کے متنازعہ کردار کی وجہ سے کئی اہم ممالک ، خاص طور پر مسلم ممالک کو سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب نے اپنا موقف واضح کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں کی تعداد کو میرٹ کی بنا پر بڑھانے کی اصولی ضرورت ہے۔ پاکستان کی جانب سے اہم ایشوز پر آواز اٹھانے پر امریکا جائز حقوق کو دبانے کے لئے بے بنیاد ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
امریکا پاکستان کے عالمی کردار کومحدود کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے 23ممنوعہ غیر ملکیوں کمپنیوں کی فہرست میں سات نجی فرموں کو شامل کرکے وطن عزیز کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔امریکہ کی وزارت تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکورٹی کے مطابق امریکہ میں انجیئرنگ کے ساز وسامان خریدنے کے لیے جن پاکستانی کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان کے بارے میں یقین ہے کہ وہ ایسی تجارتی سرگرمیوں میں ملوث تھیں جن سے قومی سلامتی یا امریکہ کے خارجی مفادات کو خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ ان کمپنیوں کے نام یہ ہیں۔اختر اینڈ منیر حسین،انجیئرنگ اینڈ کمرشل سروسز،کیپٹل بزنس سینٹر،میرین سسٹم پرائیوٹ لمیٹیڈ،مشکو الیکٹرانکس پرائیوٹ لمیٹیڈ،پرویز کمرشل ٹریڈنگ کمپنی،پرافیشنٹ انجیئرز،سولیوشن انجیئرنگ پرائیوٹ لمیٹیڈ،وزارت تجارت نے الزام عائد کیا ہے کراچی میں واقع موشکو الیکٹرانکس پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی نے پاکستان کے بعض ایسے اداروں یا کمپنیوں کے لیے امریکہ سے ساز و سامان خریدے جو پہلے سے ہی ممنوعہ کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔اسی طرح لاہور کی سولیوشن انجینیئرنگ پرائیوٹ لمیٹڈ اور سولیوٹرانکس پر بھی الزام عائد کیا کہ ان فرم کو فہرست میں اس لئے شامل کیا گیا کیونکہ امریکا کی دانست میں یہ ایسی تجارتی سرگرمیوں میں ملوث تھیں جو امریکہ کے خارجی اور قومی سلامتی کے مفادات کے منافی تھیں۔امریکہ کا الزام ہے کہ ‘یہ کمپنیاں پاکستان میں واقع ایسے جوہری اداروں اور کمپنیوں کے لیے امریکی ساز و سامان حاصل کر رہی تھیں جو پہلے سے ہی ممنوعہ فہرست میں ہیں۔’جن سات پاکستانی فرموں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے وہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں واقع ہیں۔امریکی وزارت تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی کی طرف سے شائع کی گئی اس اطلاع میں ان کمپنیوں کے رجسٹرڈ ایڈریس بھی دیے گئے ہیں۔ اس فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد ان کمپنیوں کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔
ممنوعہ کمپنیوں کی اس فہرست کو ‘اینٹیٹی لسٹ’ کہا جاتا ہے اور اس میں کسی کمپنی کو شامل کرنے یا خارج کرنے کا فیصلہ امریکہ کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع، وزارت توانائی اور وزارت خزانہ کے نمائندے اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔خیال رہے کہ نیو کلیئر سپلائی گروپ میں جوہری ٹیکنالوجی و جوہری ساز و سامان کی تجارت کے حوالے بنایا جانے والے گروپ میں بھارت جن بنیادوں پر رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ پاکستان بھی ان ہی اصولوں پر رکنیت کا خواہاں ہے لیکن امریکا ، بھارت کی خوشنودی کے لئے پاکستان پر اثر انداز ہونے کی مستقل کوشش کررہا ہے ۔ گو کہ بھارت اس گروپ میں شامل نہیں ہے لیکن بھارت کو اس گروپ میں شامل کرنے کے لئے امریکا کی خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔واضح طور پر نظر آتا ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنے مفادات کے حصول کے لئے دبائو بڑھانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے اور پاکستان کے خلاف مسلسل سازش اور دبائو کو بڑھارہا ہے۔چین نیو کلیئر سپلائی گروپ میں شمولیت کے لئے پاکستان کی حمایت کررہا ہے تو دوسری جانب بھارت کو امریکا ، برطانیہ ، روس اور آسٹریلیا جیسے کئی اہم ممالک کی حمایت حاصل ہے ۔ تاہم این ایس جی میں رکنیت کا فیصلہ سبھی ملکوں کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے۔امریکا کی جانب سے پاکستانی نجی فرموں پر پابندیوں کا واضح مقصد پاکستان کو گروپ میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جانا مقصود ہے۔
پاکستانی وزرات خارجہ امریکی اقدامات پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرچکی ہے ۔ وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اس پابندی کو جواز کو بنا کر پاکستان مخالف حلقوں کی طرف سے اسلام آباد کی جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔امریکہ کی طرف سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اس پابندی کو جواز کو بنا کر پاکستان مخالف حلقوں کی طرف سے اسلام آباد کی جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ایک ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی (بی آئی ایس) کی طرف سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام پر جن پاکستانی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ نجی کمپنیاں ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں امریکہ اور مذکورہ کمپنیوں سے مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ سمجھا جا سکے کہ کس بنیاد پر ان کمپنیوں پر تعزیرات عائد کی گئیں۔اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو غیر ضروری سیاسی رنگ دینے والوں کو متنبہ کرتا ہے کیوں کہ اُن کے بقول پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پرامن اور جائز مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یا اشیا تک رسائی پر غیرضروری پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔
وزرات خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دوہرے مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی ہمیشہ شفاف رہی ہے اور وہ اس بارے میں سپلائرز اور امریکہ کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے جوہری تجارت میں شامل کمپنیوں پر بعض معاملات کی وجہ سے پابندی عائد کرنا اور اُنھیں فہرست سے نکالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ممالک کی کمپنیوں کو بھی بعض مرتبہ فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے مابین تعاون تاریخی ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کو روکنے اور ملک کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا ہے۔تاہم پاکستانی حکام کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان 48 رکنی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہے لیکن امریکہ اور بعض مغربی ممالک اس کے حامی نہیں۔واضح رہے کہ رواں ماہ ہی انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران وہ سول جوہری بجلی گھر گئے تھے۔اپنے دورے کے دوران آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو سراہا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی کامرس کے ادارے کی اس فہرست میں شامل ہونے والی کمپنیوں کے اثاثے منجمد نہیں کیے جاتے تاہم اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو امریکا میں کاروبار کرنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔امریکی حکام نے جن پاکستانی کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل کیا ہے وہ زیادہ معروف نہیں ہیں۔ماضی میں پاکستانی حکام پر شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنالوجی غیر قانونی اور خفیہ طور پر منتقل کرنے کے الزامات کا سامنا بھی رہا ہے۔امریکا ۔ بھارت اور اسرائیل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف قسم کی سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر2004میں شمالی کوریا کو جوہری راز فروخت کرنے کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے جبکہ مزید دبائو بڑھانے کے لئے 2008 میں اقوام متحدہ کے جوہری واچ ڈاگ نے کہا تھا کہ ‘قدیر نیٹ ورک’ نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا میں جوہری ہتھیاروں کے بلیو پرنٹ اسمگل کیے تھے اور یہ نیٹ ورک 14 ممالک میں سرگرم تھا۔سرکاری سطح پر پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیانات یا معلومات دینے کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا ہوا تھا تاہم پاکستانی وزیر اعظم شاہد کاقان عباسی نے امریکا میں سرکاری دورے کے موقع پر پہلی مرتبہ حکومتی سطح پرکہا تھا کہ ان کے ملک کے پاس محاذِ جنگ پر استعمال ہونے والے جوہری ہتھیار نہیں بلکہ کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیار ہیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم عباسی نے کہا کہ ‘پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نہیں ہیں۔’ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیار ہیں جو میدانِ جنگ میں استعمال کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں۔شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ یہ جوہری ہتھیار بھی اسی طریقے سے محفوظ کیے گئے ہیں جس کے تحت پاکستان کا باقی جوہری اسلحہ محفوظ بنایا گیا ہے۔واضح رہے کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ایسا جوہری اسلحہ ہوتا ہے جو محاذِ جنگ پر دشمن فوج کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس میں زمین سے فضا یا فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، جوہری مواد سے لیس گولہ بارود، بارودی سرنگیں اور جوہری وار ہیڈ والے تارپیڈوز وغیرہ شامل ہیں۔اس کے برعکس سٹریٹیجک جوہری اسلحے کو خاص منصوبہ بندی کے تحت ایسے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محاذ جنگ سے دور مگر سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہوں۔ یہ اسلحہ عموماً بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتا ہے۔لیکن پاکستان کے اس موقف کو امریکا نے تسلیم نہیں کیا بلکہ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ وزیر اعظم پاکستان کا ٹیکیٹکل جوہری اسلحہ نہ رکھنے کا بیان امریکی انٹیلیجنس کی معلومات کے مطابق نہیں ہے۔اخبار کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ مذاکرات میں انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان محاذِ جنگ پر استعمال ہونے والے جوہری ہتھیار نصب نہ کرے۔
پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ سے خود کو دور رکھا جائے لیکن دفاعی نکتہ نظر سے وطن عزیز کی حفاظت کسی بھی مملکت کا قانونی و اخلاقی حق ہے ۔ خاص پر جب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور افغانستان کی پشت پر بھارتی انتہا پسند حکمران جماعت ہو تو اس صورتحال میں بھارت کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا سدباب کرنے کے لئے پاکستان کو دفاعی جنگی لوازمات سے مزین ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے جس سے پاکستان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان کی نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی نے2015میں واضح کردیا تھا کہ خطے میں روایتی ہتھیاروں کے عدم توازن کے سبب پاکستان اپنی حفاظت کے لئے موثر ایٹمی ہتھیار اس لئے بنانے پر مجبور ہے کیونکہ بھارت ، پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کررہا ہے اور ملک کی تین سرحدوں پر مملکت کی بقا کو ملک دشمن عناصر سے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں اس پالیسی کو ‘فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کیپیبلیٹی’ کا نام دیا گیا تھا۔امریکا نے خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور عالمی جوہری قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور بھارت کی جانب سے پاکستان کی سا لمیت کے خلاف اشتعال انگیز کاروائیوں پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ۔ لیکن امریکا کا دوہرا معیار ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں اور مملکت کی حفاظت کے لئے دفاعی طور پر مضبوط بھی نہیں ہوسکتا ۔بلکہ پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کی مسلسل سازش و منصوبہ بندی امریکا کی خارجہ پالیسی بن گئی ہے۔پاکستان اپنے دفاع کے لئے بڑے پیمانے پر ایسی کسی ٹیکنالوجی کا حصہ بننے کے لئے اس لئے تیار نہیں کیونکہ بھارت کے علاوہ ، پاکستان کی مملکت کو براہ راست کسی بھی دوسرے ملک سے خطرات نہیں ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں امن مشن کے لئے اپنے جوانوں کی قربانیاں دے رہا ہے۔ امریکا کے حلیف بننے کی پاداش میں پہلے سوویت یونین کے خلاف صف آرا ہوا تو اب اس کے نتیجے میں پاکستان کو انتہائی مضمرات کا سامنا رہا ۔ لاکھوں مہاجرین کی آمد و دیگر مسائل سے پاکستانی حکومت آج تک مشکلات کا شکار ہے۔ امریکا کی جنگ میں سہولت کار بننے کی غلطی کرکے دہشت گردی پاکستان منتقل ہوچکی ہے۔
پاکستان ، امریکا کا سہولت کار بننے کے بعد شدت پسندوں کے نشانے پر آنے پرملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کی کاروائیوں سے پاکستانی کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ امریکا نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کا صلہ پابندیوں اور الزام تراشیوں کی صورت میں دیا ۔پاکستان پر عسکری امداد پر پابندی سمیت دفاعی نوعیت کے اہم پرزے جات کی عدم فراہمی سمیت عالمی مالیاتی فورم میں پاکستان کے لئے مشکلات کھڑا کرنا شروع کردی ۔ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات اور الزامات لگانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا لیا ۔ امریکا نے سی پیک پیک منصوبے کے خلاف اپنے چھپے عزائم بھی آشکارہ کردیئے اور معاشی عظیم منصوبے خلاف ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی شروع کردی ۔ خطے میں عدم استحکام کے لئے داعش جیسی تنظیموں کی سرپرستی شروع کردی اور خطے میں پڑوسی ممالک کے لئے ایک بڑے خطرے کی بنیاد رکھ دیں ۔ چین اور روس کا راستہ روکنے کے لئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر نیو ورلڈ آرڈر کے تحفظ کے لئے اپنے حلیف ممالک ، خاص کر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ بھارت کو خطے میں اپنا کردار بڑھانے کے لئے مسلسل شہ دی ۔ بد نام زمانہ را اور این ڈی ایس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی و امریکی ایجنسیوں نے پاکستان میں غیر قانونی مداخلت و اپنے نیٹ ورک کو وسعت دیتے ہوئے پاکستان کے اداروں کے خلاف مذموم سازشوں کو بڑھاوا دیا ۔ پاک۔ افغان سرحد پر کابل افواج کی در اندازیوں اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر خلاف وزریوں پر امریکا کی خاموشی ثابت کررہی ہے کہ عالمی استعماری طاقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے ۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے پر امن ایٹمی پروگرام کے خلاف نئی سازشوں کا جال بن کرعالمی برداری کو وطن عزیز کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کررہا ہے جو پاکستان کے لئے کڑا امتحان ہے۔