تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کیا ان ماں باپ کو ذہنی کوفت اور سخت ترین اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی جن کی جواں سال بیٹی کسی مخلوط نظام تعلیم کے تحت چلنے والے سکول کالج یا یونیورسٹی کو چلی جاتی ہے ؟ یہ مخلوط نظام تعلیم انگریزوں کے دور سے ہی یونیورسٹیوں کا لجوں اور سکولوں میں چلا آرہا ہے اس کی ان گنت خرابیاں ہیں جو کہ دن دیہاڑے چمکتے سورج کی روشنی میں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ رات کے اندھیروں میں بھی دکھلائی دیتی ہیں معاشرے میں سب فحاشی ،عریانی اسی کی بدولت پھیل رہی ہے امریکہ و دیگر سامراجی ممالک میں سکرٹ پہنی ان کی نوجوان بچیاں حتیٰ کہ بیویاں تک مکمل ننگی نظر آتی ہیں اور کپڑے بھی ایسے کہ سارا بدن اس میں سے جھلکتا رہے ۔مخلوط نظام تعلیم کے بعد ننگے ڈانس کلب کھلے ہوئے ہیں جہاں دیر گئے تک لوگ اپنی بہنوں بیویوں کو ساتھ لے جا کر مشترکہ ((Coupleڈانس کرتے اور شرابوں کے جام لنڈھاتے ہیںوہاں رات کے پچھلے پہر توکسی بھی بیٹی بہن بیوی کی تمیز نہیں رہ جاتی جس مرد کو جو عورت بھی پسند آجاتی ہے اور وہ بھی آمادگی ظاہر کر دے تو ان کا بھی مشترکہ جوڑا بن جاتا ہے پھر “دل پشوریاں ” کرتے کرتے صبح کی پوَ پھٹنے لگتی ہے۔
تب کہیں جا کر یہ جوڑے علیحدہ ہوتے اور اپنے اپنے گھروں کو گرتے پڑتے نیم بیہوشی کے عالم میں واپس چل پڑتے ہیں اور کئی تو وہیں کلب میں اوندھے منہ پڑے رہتے ہیں ایسے مخلوط کلبوں کی ڈانسر ز بھی انتہائی جدید دور کی ڈھلی ہوئی ہوتی ہیں ان کے جسم پر بھی لباس لاکھ کہیں کہ ہے مگر نہ ہے کی طرح کا ہوتا ہے ویسے ان کلبوں میں کسی قسم کی کوئی شرم و حیاء تو کیا ہو گی؟ ہر جوڑا انتہا کی شہوتوں میں مبتلا ہو کر وہ وہ کام کر بیٹھتا ہے جس کا ہمارے مسلمان معاشرے میں بہت کم امکان ہو تا ہے مگر انگریز کے تیار کردہ مخلوط نظام تعلیم کا خنجر ہمارے سکول کالجوں میں ہمارے سینوں میں چبھا ہوا ہے ۔ مگر یہودیوں نصرانیوں اور سامراجیوں کے ممالک جو کہ ہمیں بھکاری سمجھ کر سود در سود قرضے فراہم کرتے ہیں ان کا ہمیشہ سے ہی یہ مزید مطالبہ رہا ہے کہ ہم بھی ان کی طرح بے غیرتیوں کے سمندر میںڈوب جائیں ان کے ہاں تو فیملی لائف کا اب تصور ہی نہیں رہاجوانی کو پہنچنے والے بچے بچیاں “پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں “گھومتی پھرتی ہیں مگرکوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں فلاں کا ہی بیٹا بیٹی ہوں کہ وہاں نوجوان بچی ہو حتیٰ کہ آپ کی بیوی تک کسی نہ کسی کی “گرل فرینڈ”لازماً ہو گی در اصل انگریز چاہتا تھا کہ مسلمانوںمیں سے غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے تو پھر ہی یہ ہندوستان سے ہمیں نکالنے کے لیے جہاد وغیرہ سب بھول جائیں گے گرل فرینڈ رکھنے کا رجحان ہمارے ہاں بھی مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے ہی بڑھ رہا ہے۔
لڑکیوں کے لیے علیحدہ سکولز کالجزاور یونیورسٹیاں با آسانی قائم کرسکتے ہیں مگر انگریزوں کے پالتو ہمارے لادین کرپٹ بیورو کریٹ ایسا نہیں ہونے دیتے کہ ان کی تربیت تو انگریزوں نے اسی نہج پر کی تھی تاکہ وہ خود یا پھر کوئی کلمہ گو اصل مسلمان نہ بن سکے اور نہ ہی رہ سکے تاکہ ان میں کفار کے خلاف جہادی خواہشات ہی نہ پنپ سکیں ۔ویسے تو ہماری پاک فوج کا بھی نعرہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جس کی پورے عالم کفر ،ہندو بنیوں اور سامراجیوں کو تکلیف ہے وہ بیچارے کیا سمجھیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے ماٹو میں کیا حکمتیں پنہاں ہیں ؟جب انگریزوں کا متحدہ ہندوستان سے چل چلائو کا دور تھا اور” جنگ آزادی”بھی ناکام ہو چکی تھی تو انہوں نے جہاد کو حرام قرار دلوانے کے لیے اپنے ایک کلرک مرزا غلام احمد کے ذریعے قادیانیت کا پود ااگایااس کی پرورش کی اس کی سینکڑوں تحریروں کو وسیع پیمانے پرچھپواتے رہے اس نے خود لکھا کہ میں نے انگریزی اقتدار کے تحفظ کے لیے اتنی کتابیں رسالے لکھے ہیں جن سے درجنوں الماریاں بھر سکتی ہیں کبھی تو پاکستان میں دینیات ایک لازمی مضمون کے طور پرپڑھایا جاتا تھا بعد ازاں قرآن مجید با ترجمہ سکولوں کالجوں میں پڑھایا جا نے لگا ۔مگرسامراجی ممالک جن کو ہمارا ایٹمی پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا اور جو سود در سود قرضوں کے ذریعے ہمارے “خوراک و طعام “کا نام نہاد ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں اب تو ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے کہ ہمارے نا اہل حکمرانوں نے اللوں تللوں میں بھاری رقوم اجاڑ ڈالی ہیںقرضے کیسے اتریں گے کسی کو نہ پتہ ہے اور نہ ہی اس کی فکرانگریزوں کے پیروکار حکمرانوں نے قوم کو بانجھ بنا ڈالا ہے۔
چند سال قبل ہی امریکی یہودی حکمرانوں کے حکم کے مطابق ہمارے ہاں لڑکے لڑکیوں کی اکٹھی دوڑیں شروع کروائی گئی تھیں اور یہ بھی ” مخصوص کٹ ” کے ساتھ جو لڑکی سکول کالج میںپڑھتی اس میں شامل نہ ہونا چاہے اس کا ادارہ سے اخراج کرنے کی بھی دھمکی موجود تھی۔مخلوط تعلیمی اوقات میں جب لڑکے لڑکیاں اکٹھے رہتے ہیں تو لازمی امر ہے کہ مخالف صنف ایکدوسرے کو اپنے فون نمبر دے بیٹھتے ہیں اور پھر رات گئے تک (غیر ملکی موبائل کمپنیوں نے رات گئے کا مفت پیکج دے رکھا ہے )آپس میں اپنے اپنے علیحدہ کمروں میں ” بات چیت /گپ شپ “کا سلسلہ جاری رہتا ہے بیچارے ماں باپ تو آرام فرما رہے ہوتے ہیں مگر مخلوط نظام تعلیم کے ڈسے ہوئے یہ جوڑے رت جگے کاٹتے اور محبت کی پینگیں بڑھاتے رہتے ہیں ویسے بھی کالجوں یونیورسٹیوں میں کون چیک کرتا ہے کہ طالبعلم کس وقت کالج آیا اور کس وقت چھٹی کرکے چلا گیا یہیں سے جوڑے نکلتے اور عیاشیاں کرکے اور بروقت گھر پہنچ کر ماں باپ کو “مطمئن “رکھتے ہیں کئی تو ماں باپ سے پو چھے بغیر ہی کسی کافرانہ مخلوط نظام تعلیم کی “برکات “سے باہر ہی باہر ” عارضی شادیاں” رچا لیتے ہیں معاشرے میں بگاڑ اس طرح بڑھتا ہے پانچ تا چھ سال کی بچیوں کو تو مدرسہ یا سکول آتے جاتے نوجوان مرد دبوچ کر اپنی ناپاک ہوس پوری کرتے ہیں تو نوجوان بچیو ں کا کیا حشر ہوتا ہو گا؟ حکمرانوں کی ہی غیرت جاگ اٹھے تو اس مخلوط نظام تعلیم کوجڑ سے اکھاڑ کر اعلیٰ ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں۔