تحریر : عبدالجبار خان دریشک امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد ، اور وہاں امریکہ سفارت خانے کے افتتاح کے منصوبے نے فلسطینیوں کے غم و غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 15 مئی 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے خلاف فلسطینی مسلمان مسلسل احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی سال 15 مئی کو اس ناجائز قبضہ کو 70 سال پورے ہو جائیں گے اس 70 سال کے ناجائز قبضہ میں اب تک لاکھوں مسلمان شہید اور 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھر بار یا تو چھوڑنا پڑے یا پھر انہیں بے دخل کر دیا گیا ، اس تناظر میں حماس نے عوامی احتجاج کو چھ ہفتوں تک جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ اس عوامی احتجاج کے منتظمین نے احتجاج کا نام ’واپسی کا عظیم احتجاج، ٹرمپ کے لیے پیغام‘ رکھا ہے۔جب فلسطینی مسلمان احتجاج کرنے غزہ کے بارڈر پہنچے تو ان پر اسرائیلی افواج بے تحاشہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں اب تک 20 فلسطینی مسلمان شہید جب کہ دوسو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے پہلے سے بھر پور تیاری کر رکھی تھی ، اس احتجاج کو روکنے کے لیے جہاں ٹینک کے گولے برسائے گئے ، فائرنگ کی گئی ، تو اسرائیل نے آنسو گیس کی شیلنگ کے لیے پہلی مرتبہ ڈروان کا بھی استعمال کیا جسے کے بارے ایک بین الاقومی خبر رساں ادارے نے دو ہفتے قبل خبر دی تھی، فلسطینوں پر اسرائیل کی جانب سے بے جا تشدد پر اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہونے والی ان ہلاکتوں کی آزادانہ اور غیر جانبدرانہ انکوائری کرائی جائے۔ لیکن اس تمام تر صورت حال میں آو آئی سی اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی خاموشی کسی افسوس سے کم نہیں ، صہونی طاقتیں جہاں مسلمان کے لیے زمین تنگ کرتی جا رہی ہیں ایک مسلمان پر ظلم ہوتا دیکھ دوسرے خاموش رہتے ہیں یہ سب کچھ مسلمان حکمرانوں کا اپنا اقتدار قائم رکھنے اور بچانے کے لیے خاموش ہیں۔ ایک طرف اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے تو۔ مسلمان حکمران اپنے مفاد کی خاطر اپنے مذہبی دشمنوں کو اپنی سر زمین پر بت خانے قائم کرنے کی اجازت دے رہیں تو کوئی ان اسرائیلوں کو سہولت دینے کے لیے اپنی فضائی حدود دے رہا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ فلسطین کے شہر یرشلم پر کئی مرتبہ قبضے ہو ئے اور تباہ ہوا ،یرشلم کی تاریخ تو پتھر کے زمانے سے شروع ہوتی ہے لیکن تیتیس صدیوں کی تاریخ میں اس شہر کو بارہ شدید زلزوں نے تباہ کیا ، کم و بیش بیس مرتبہ اس شہر کا محاصر کیا گیا ناکہ بندیاں لگائی گئیں ، دو مرتبہ اس کی اینٹ سے اینٹ ایسی بجائی گئی کہ مدت تک یہاں کے حالات کا کوئی سراغ نہ ملا ، اٹھارہ مرتبہ نئے سرے سے تعمیر ہوا ، اور چھ مرتبہ اس کے باشندوں نے مذہب تبدیل کیا۔ خیر یہ تو ایک پرانی تاریخ ہے اور اندازے ہیں فلسطین پر قبضہ 1948 میں ہوا لیکن اس کی شروعات اور تیاری بہت پہلے شروع ہو گئی تھی ، 26 اپریل 1916 کو برطانیہ ، فرانس ، اور روس میں معاہدہ ہوا کہ فلسطین میں بین الاقومی حکومت قائم کی جائے گی ، 1917 میں برطانیہ نے یہ بات ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ملک قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس دوران جب برطانوی فوج کا قبضہ یروشلیم اور مشرق اردن پر ہوتا ہے تو 1920 میں حکومتی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد برطانیہ نے سر ہربرٹ سیموئیل کو وہاں کا ہائی کمشنر مقرر کردیا گیا۔ اس دوران عربوں نے شدید احتجاج جاری رکھا اور ہنگامے کیے کہ یہودیوں کی آباد کاری نہ کی جائے آگے چل کر اس معاملات کو دیکھنے کے لیے والٹرشاکی کی سربراہی میں کمشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ 1930 میں منظر عام پر لائی گئی جس میں کہا گیا عربوں کو یہودیوں کی آباد کاری سے تشویش ہے اور عرب آزادی نہ ملنے سے سخت غصے میں ہیں، رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا کہ جن عربوں کے پاس زمینں نہیں ہیں ان کی مالی حالت دن بدن پستی کی جانب جارہی ہے رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ جب تک عربوں کو زمینں نہیں مل جاتیں تب تک یہودیوں کی زمین خریداری کے عمل کو روکا جائے۔ اس کے کچھ عرصے بعد برطانیہ حکومت نے آرتھر واشوب کو ہائی کمشنر مقرر کردیا ، جنوں نے فلسطین میں یہودیوں کے ذاخلے میں نرمی کر دی ، جس کے جواب میں عربوں نے برطانیہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ان کے مال کی خرید و فروخت ترک کردی، تاہم 1936 میں عربوں نے شدید مظاہرے کیے جو جنگ کی صورت حال اختیار کر گئے، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے مزید فوج روانہ کر دی اور معاملے کی تحقیق کے لیے پیل کمشن بنا دیا جس کی رپورٹ 1937 میں پیش کی گئی جس کے مطابق عرب اور یہودی ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور سفارش کی گئی کہ فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
عربوں نے اپنے مطالبات کے حق میں شام کے شہر بلودان میں ایک اجلاس بلایا جس میں تقریباً چار سو شرکاء نے پیل کمشن کی مخالفت کی ، اور مطالبہ کیا گیا کہ فلسطین میں ایک آزاد حکومت قائم کی جائے اور برطانیہ سے تعلق ختم کیا جائے، اس صورت کو دیکھتے ہو برطانیہ اپنے ہائی کمشنر سرآرتھر واشوب کی جگہ سرہیرلڈمیک کو ہائی کمشنر لگا دیا، جبکہ حکومت برطانیہ 1938 کے اختتام تک پچاس ہزار فوجی فلسطین بھیج چکی تھی۔ 1939 میں برطانیہ نے لندن میں ایک کانفرنس بلائی جس میں عربوں اور یہودیوں کے نمائیدوں کو شرکت کی دعوت دی گئی پر یہ کانفرنس بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اس کانفرنس میں برطانیہ کی تجویز تھی کہ فلسطین کو دس سال میں آزاد کر دیا جائے ، عرب اور یہودی اس طریقہ پر حکومت میں شریک ہوں کہ دونوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا رہے ، ابتدائی نوعیت کی حکومت میں عرب اور یہودی محکوں کی ذمہ داریاں سنھالیں گے اور برطانوی مشیر ان کی معاونت کریں گے اور پانچ سال تک یہودیوں کی آمد بند رکھی جائے گی اور پانچ سال میں صرف 75 ہزار یہودی فلسطین آ سکیں گے اور اسی طرح 1944 تک فلسطین میں ان کی آبادی کا تناسب ایک تہائی تک ہو جائے گا۔ اسی دوران دوسری عالمی جنگ شروع جاتی ہے۔ جس میں جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جبکہ برطانیہ کی حکومت فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوئی تو اس نے اپنی فوج فلسطین سے واپس بلا لی اور اسی طرح برطانیہ کی فلسطین پر حکم دار ختم ہوئی اور یہودیوں نے اپنا مرکز حکومت تل ایب سے یروشلیم ناجائز منتقل کر دیا ۔
فلسطینی مسلمانوں کو اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے ایک صدی ہونے والی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ سال فلسطینی مسلمانوں پر ظلم اور بربریت میں مزید آضافہ ہو گیا ہے ، جس کی وجہ امریکہ میں ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا جو کہ ایک نسلی تعصب رکھنے والا شخص ہے، اس کے آنے سے اسرائیل کے تعلقات امریکہ سے مزید مستحکم ہوئے ہیں ٹرمپ نے امریکہ کا سفارت خانہ یروشلیم منتقل کرنے کا آتے ہی اعلان کیا تھا اور یروشلیم کو کو اسرائیل کا درالحکومت بنانے کے اعلان کے بعد فلسطینی مسلمانوں میں مرید غم غصہ پایا جاتا ہے ٹرمپ کی یہودیوں کے ساتھ محبت دراصل اس کے داماد جیرڈ کوشنر کی وجہ سے ہے جو ایک کٹر یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اسی نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی سہولت کاری کے لیے اقوام متحدہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف سلامتی کونسل میں ایک قرار داد کو ناکام بنانے کی کوشش کی تھی بہرحال تمام تر صورت حال میں عالمی اداروں اور خاص کر اقوام متحدہ و انسانی حقوق تنظیموں کی خاموشی سے واضع ہوتا ہے کہ تمام عالمی طاقتیں اور تنظمیں یہودی ایجنڈے کے پیچے کھڑی ہیں۔ جو کسی صورت میں فلسطینی مسلمانوں کو آزادی دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی مراثم ختم کریں اور سعودی عرب نے حالیہ فضائی حدود کی جو اجازت دی ہے اس فیصلے کو واپس لے کر فلسطینی مسلمانوں کا ساتھ دیں۔