تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ملک بھر کی تمام عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود پتنگ بازی کا غلیظ اور جان لیوا عمل جاری و ساری ہے کہ جنہوںنے اس کو روکنے کے لیے کاروائی کرنی ہے وہ خود ہی اس میں ملوث ہیں وگرنہ اس عمل کو روکناکوئی مشکل کام نہ ہے اصل صورتحال یوں ہے کہ خود پتنگ کا بنانا ڈور کو مانجھا لگانا یا کھردری دھات سے ڈور بنانا کوئی زیر زمین نہیں ہو رہا مختلف شہروں میں اس کے کئی اڈے /کارخانے قائم ہیں وہ پولیس اور متعلقہ انتظامی افسروں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکتے بلکہ خفیہ طور پر “مناسب مال متال “سے ان کی جیبیں گرم کیے رکھتے ہیںحکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے اس لیے ادھر کون توجہ کرے ہفتہ میں 2,3بچے یا توخونی کھردری دھاتی تار کے گردنوں پر پھر جانے سے ہلاک ہو رہے ہیں یا پھر درجن بھر شدید زخمی ۔ اس طرح بہیمانہ بچوں کا قتل جاری ہے مگر “تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”کے مصداق حکمران “جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی” کی طرح مزید مال سمیٹنے میں شدید مصروف ہیں۔
معصوم بچوں کے قتل سے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ خطر ناک جان لیوا کاروبار روزانہ کی بنیاد پر مسلسل چلتا رہتا ہے پولیس محض فرضی کاروائیاں ڈالتی رہتی ہے غلط سلط ناموں یا پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات کا اندارج کرکے کاغذوں کا پیٹ بھر ڈالتی ہے تاکہ”سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ” حکمرانوں کے پوچھنے پر یہ جعلی کاروائی دکھا سکیں اوپر تک سب اچھا کی رپورٹ ہر ایس ایچ او/اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے اوپر بھجوا دی جاتی ہے کہ پتنگ بازی قطعاً نہیں ہورہی نہ پتنگ بن رہے ہیں نہ بک رہے مگر تنگ محلوں گلیوں بازاروں میں بن کر بک رہے ہیں کوئی عقل کے اندھوں سے پوچھنے والا نہ ہے کسی ایک متعلقہ افسر کو چوک میں لٹکا ڈالا جاتا تو کم ازکم ایک سو کلو میٹر تک پتنگ بازی نہ ہو سکتی کہ آہنی ہاتھوں سے نپٹے بغیر یہ کاروبار بند نہیں ہو سکتا روزانہ ناجائز دولت پتنگوں کے اڈوں اور فروخت کرنے والی دوکانوں سے اکٹھی کی جاتی اور اوپر تک حصہ بقدر جسہ باقاعدگی سے ہفتہ وار روانہ کی جاتی ہے کوئی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے تو ہر طرف” پتنگوں کی بہار “نظر آئے گی۔
پھر رات گئے تک جدید ترین لائٹس لگا کر شراب و کباب اور ڈانس کی محافل چھتوں پر منعقد ہوتی ہیں ۔امسال کی پہلی سہ ماہی میں ڈیڑھ درجن سے زائد بچے ہلاک ہو چکے کوئی قتل عمد کا نہ تو پرچہ درج ہوا اور نہ ہی گرفتاری عمل میں آئی” گونگے نوں نہ مارو اودی ماں نوں مارو جیڑھے گونگے جمدی اے” انتظامیہ یا کاروبار کرنے والوں کو چوکوں پر مثالی سزا دے ڈالو تو یہ عمل قطعاً بند ہو جائے گا الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا جب ننھی معصوم بچیوں اور بچوں کی ہلاکت کی خبریں نشر کرتا ہے توپاکستانی خون کے آنسوروتے اور ان کے لواحقین کے دلوں پر کیا بیتتی ہے” جس تن لاگے اس تن جانے” بڑے چوکوں پر متعلقین کو سزا دینے سے ہی دیکھنے والے عبرت پکڑیں گے کہ فلاں چوک پر پتنگ فروش مرغا بنے ہوئے تھے ایسا نہ کیا گیا تو یہ خونی عمل دیکھا دیکھی بڑھتا جائے گا عدالتوں کے فیصلوں کا کیا حشرہوا ؟کیا یہ صرف عدالتی کمروں میں فیصلے سنانے اور میڈیا پر صرف دکھانے کے لیے ہوتے ہیں ؟ان پر عمل در آمد کرنے کے لیے فرشتے آسمانوں سے قطعاً نہ اتریں گے کرپٹ لادین بیورو کریسی کیا صرف لوٹ مار کے کاروبار کے لیے ہی ہے؟
لاکھوں روپے ماہانہ عوامی خزانہ سے تنخواہ وصول کرتی ہے جا گنا ہو گا اور ذمہ داریاں ادا کرنا ہو ں گی بابا رحمتے اور خادم اعلیٰ کہاں ہیں؟دوبارہ از خود نوٹس لیکر تھانوں اور متعلقہ انتظامی افسران کو طلب کرکے قرار واقعی سزا دے ڈالیں تو یہ عمل بد رک سکتا ہے دوکانداروں اور پتنگوں کے بنانے والوں کے زیر زمین کارخانوں سے خونی دھاتی تار برآمد ہو قتل کے مقدمات بلا خوف تردید درج ہوں اور اس مکان کے لواحقین جہاں ساری رات چھتوں پر ڈھول ڈھمکا ہوتا ہے ایک بار تنبیہ کرکے دوبارہ گھر ہی زمین بوس کر ڈالنا چاہیے اسلامی قوانین کے سخت ہونے کا مغربی دنیا میں رونا تو رویا جا تا ہے مگر کسی ایک مجرم کو سزا ،کسی چور کا ہاتھ کٹنے اور زانی کو سنگسار کر ڈالنے کے بعد ایسے جرائم میں اٹھانوے فیصد تک کمی آجاتی ہے بڑے شہروں میں پتنگ بازی پر پابندی نہ لگائے جاسکنے کی وجہ سے چھوٹے شہروں میں بھی معصوم بچوں کا قتل خونی ڈورکے گردنوں پر پھرنے سے جاری و ساری ہے اگر حکمران اس قتل و غارت کو بند نہیں کر سکتے تو پھر خود کو نا اہل سمجھتے ہوئے استعفیٰ دیں یا پھر چلو بھر پانی میں ناک ڈوب کر اگلی دنیا کو سدھار جائیں سبھی کو کردار ادا کرنا ہو گا بالخصوص حکمرانوں کو تاکہ یہ خونی کھیل مکمل ختم ہو سکے۔