تحریر : انجینئر افتخار چودھری لگتا ہے جیو نے قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے ساتھ ہلا کے بھی رکھ دینی ہیں۔اور اس کے لئے انہوں نے حامد میر نامی ایک شخص رکھا ہوا ہے جو کبھی پاکستان کی سب سے بڑی ایجینسی جس نے مادر وطن کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اس کے منہ پر کالک ملتا ہے کبھی فوج کو گالی دیتا ہے۔جی ہاں یہ وہی حامد میر ہیں جن کے والد گرامی وارث میر بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے اعلی سول ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں جن دنوں مطیع الرحمن پھانسی کے جھولے جھول رہے تھے انہی دنوں موصو ف اس ڈائن کے ہاتھوں سے ایوارڈ وصول کر رہے تھے۔یہ ہوتی ہے ضمیر فروشی اور اسے کہتے ہیں جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا بلکہ عرف عام میں اس میں بول کرنا۔اب ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ آپ کو چودھری رحمت علی کے بارے میں کیا سوجھی کہ کہ نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ پاکستان کا نام ایبٹ آباد کے کسی کاظمی نے تجویز کیا تھا اور محقق ہیں جناب جعفری گویا یہ کوئی کسی جعفری کے چچا مامے کا نام تھا کاظمی جس نے چودھری رحمت علی سے پہلے پاکستان اخبار کا ڈیکلیریشن لینے کی کوشش کی۔اکبر علی بھٹی اور مجیب شامی سردار نیازی کے پھڈے اپنی جگہ اب کوئی کاظمی بھی حقدار ہیں۔
پاکستان کا نام ہی کیا پاکستان کے بارے میں چودھری رحمت علی نے تو ١٩١٥ میں اسلامیہ کالج کی بزم شبلی میں بات کر دی تھی کہ اس خطے کے لوگوں کو آزاد ملک چاہئے ہندئوں سے جان چھڑوائو یہ آپ کی مساجد تک برباد کر دیںگے۔
بات در اصل یہ ہے کہ جب بھی چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی بات کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔مر گئے ہیں جناب مجی د نظامی انہوں نے چودھری شجاعت حسین کے دور وزارت عظمی ایسی ہی چھوڑی تھی اور چودھری رحمت علی کے جس خای کو پاکستان لانے کی کوشش ناکام بنا دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ چودھری رحمت علی کی قائد اعظم سے لڑائی ہو گئی تھی لہذہ ان کے جسد خاکی کو پاکستان نہ لایا جائے۔ گویا ہم عصر لوگوں میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا ہم نے مولانا غلام غوث ہزاروی کو سید مودودی کے بارے میں سخت کلمات کہتے دیکھا اسی طرح بھٹو کو اصغر خان کا نام بگاڑتے بھی سنا۔لوگ ایک وقت میں ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ لیتے ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی یہ بات غلط ہے۔اقبال تو ان کے بارے میں کہہ چکے ہیں نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے یہ ان کے لئے ہدائت بھی ہو سکتی ہے مگر ان میں کوئی کرنٹ تھا جو اقبال جیسے عظیم شاعر نے یہ اشعار نظر کئے۔
چودھری صاحب کے بارے میں جناب الطاف حسین قریشی کے ہوتے ہوئے ممتاز دانشور جناب مجیب شامی نے ہالیڈے ان کی سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے اوپر اتھارٹی حمید نظامی ہیں مجید نظامی نہیں۔اسی طرح جناب ضیاء شاہد جیسے دھبنگ صحافی کے بھی جناب چودھری رحمت علی کے بارے میں بڑے مثبت خیالات ہیں۔اصل میں کوئی خاص وجہ ہے جو چودھری رحمت علی کے دشمنوں کے ڈھیر پیدا ہو گئے ہیں۔اور ان کی بھانت بھانت کی بولیاں تعفن زدہ کلمات کہتی ہیں ان سے کوئی پوچھے پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ اسم پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی تھے اسے پڑھایا جا رہا ہے لکھایا جا رہا ہے در و دیوار پر کندہ ہے مشاہیر پاکستان میں ان کا نام نامی موجود ہے ۔اب جیو اور حامد میر کو کیا سوجھی کیا چودھری رحمت علی ان کے کیپٹل ٹاک کو نشانہ ء تنقید بنا بیٹھے ہیں ۔ہوتا در اصل یوں ہے کہ ہم لوگ اجازت دے دیتے ہیں اور منہ پھٹ لوگ جو جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں ایک بار قائد اعظم کے بارے میں بھی ہرزہ سرائی ہوئی اور بعد میں حضرت علامہ اقبال پر سردار عبدالقیوم برسے تو جنرل حمید گل نے مدینہ منورہ میں مجھ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افتخار! اگر چودھری رحمت علی پر برستے پتھروں کو روکا گیا ہوتا تو حکیم مشرق کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا ۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ چودھری رحمت علی علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئیان کی تضحیک کو جرم قرار دے۔مگر کیا کیا جائے گجروں کے عالی شان فنکشنوں میں ہر کوئی سردار قوم بنا پھرتا ہے کبھی فلور پر بات نہیں کرتے کہ کہ ان کی پارٹیوں کے سربراہان ناراض نہ ہو جائیں۔ میں نے اپنے نوجوان اراکین اسمبلی سے کئی بار بات کی کہ پنجاب اسمبلی کم از کم ان کے جسد خاکی لانے کی قرارداد لائے۔پنجاب کا یہ واحد مسلم لیڈر ہے جس نے امت مسلمہ کے لئے بات کی اور الگ وطن کی بات کی۔اس خوبصورت دراز قد پنجابی نوجوان نے ١٥ سال کی عمر سے جد وجہد کی اور نائو اور نیور تک کا سفر بڑی جانفشانی سے طے کیا۔
میرا سوال ہے حامد میر سے کہ آپ کو کس بات کی تکلیف ہے کہ قومی اداروں کی توہین کے بعد آپ قومی مشاہیر کی توہین کرتے ہو۔آپ نے کبھی گاندھی کی دو رخی پر بات نہیں کی اہنساء کا پجاری ویمنائزر کہلاتا تھا اس کے بارے میں کبھی لب نہیں کھولا نہرو کی لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیگم سے عشق طرازیوں کا ذکر نہیں کیا۔آپ نے جب بھی چاہا پاکستان کے معتبر لوگوں کو نشانہ ء تضحیک بنایا آئی ایس ؤئی کے چیف کو دو دن تک رگڑا لگایا۔نقاش پاکستان جنہوں نے پاکستان کی مختلف اکائیوں سے نام لے کر سوہنے پاکستان کا نام دیا اسے اب متنازعہ بنا رہے ہیں۔محقق کس بلاء کا نام ہے اور مورخ کس چیز کو کہتے ہو جس کی جو مرضی آئے لکھ دے۔میں ٢٠١٨ میں لکھ دوں کہ کلو جٹ ایک عظیم شخص تھے تو دنیا سو سال بعد لکھاری انجینئر افتخار چودھری کو زبردست قرار دے گی اور وہ محقق ہو گا جو کہے گا کہ اکرم عرف کلو جٹ جو تیسری چوتھی میں بار بار فیل ہوتا رہا وہ ایک عظیم شخص تھا۔
بندہ تو میں ترکھا ہوں جب چودھری رحمت علی کے بارے میں بات چھڑی کہ ان کے جسد خاکی کو پاکستان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ نوائے وقت ہے اور اس کے مالک مجید نظامی ہیں تو میں نے انہیں خط لکھا۔جناب نظامی صاحب لگتا ہے کہ کہ مردہ چودھری رحمت علی پ کے ٤ اے فاطمہ جناح روڈ کے دفتر پر قبضہ کرنے انگلستان سے آ رہے ہیں اسی لئے آپ کو تکلیف ہے۔وہ مجھے اسلام آباد میں ملے گلہ کیا لاہور بلوایا اور کہا کہ آپ سخت باتیں کرتے ہو میں نے نرم لہجے میں کہا مردوں کے ساتھ لڑائی لڑ کے آپ بھولو پہلوان نہیں بن سکتے۔اب کدھر ہے ان کی پہلوانی اللہ کرے وہ جنت میں چودھری رحمت علی سے ملیں اور اگر ملے تو کس منہ سے ملے ہوں گے۔میں ان گجروں کے ٹھیکے داروں سے کہتا ہوں ہمت ہے تو اسمبلی میں احتجاج کرو ورنہ پریس کلب کے باہر تو ہم جا ہی رہے ہیں۔
حامد میر صاحب آپ کے ابے نے جو پاکستان کے ساتھ حشر کیا وہ بھی دنیا کو معلوم ہے۔وارث میر کا کردار وہی تھا جو عاصمہ جہانگیر،ماری سرمد،فرزانہ باری،ھود بھائی کا تھا۔وہ بھی پاکستانی فوج کو گالی دیتے تھے اور یہ بھی طاہرہ عبداللہ کی طرح منہ کھولتے ہیں۔اسلام اور پاکستان کے لئے ہماری فوج کا کردار تعین تاریخ کر چکی ہے۔اور آپ کے والد محترم کا کردار بھی لکھا جا چکا ہے۔جس کسی نے سلیم منصور خالد کی کتاب البدر پڑھی ہے اسے مکتی باہنی اور قادر باہنی کے کر دار کا علم ہو چکا ہو گا جس نے نہیں پڑھی وہ ڈھونڈ کے پڑھے اور دیکھے کہ کیا کچھ کیا انڈیا نے ہمارے ساتھ۔ پاکستان بنا بھی اوکھا تھا اور قائم بھی قربانیوں سے ہے ہم پانیوں میں گھرے اندھرکے دشمنوں سے لڑرہے تھے نواز شریف کے ممدوح اچکزئی جیسا تھا شیخ مجیب اور وہ شیخ مجیب جو وطن کا غدار تھا جسے نواز شریف پسند کرتے ہیں اس کو اقتتدار نہیں ملا تو انڈیا سے مل گیا اور فوج کو گھیرے میں لے کر پاکستان کو شکست دی اکیلا وہ نہیں تھا روس تھا ساتواں بحری بیڑہ نہ بھیجنے والے بھی تھے اور ہمارے لوگوں کا رویہ بھی تھا ملک دو لخت ہوا پاکستانی فوج کو پنجابی فوج قرار دیا گیا اور یہ کام پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء صحافت کے انچارج وارث میر نے کیا تھا۔سپاں دے پت کدی مت نئیں بن دے بھانویں چلیاں دودھ پلائیے ہو۔پاکستان نے حامد میر آپ کو بہت کچھ دیا ایک نکمے اور نکھٹو صحافی تھے تم تمہیں جیو جنگ نے آگے کیا اور جب اس فیلڈ میں خلاء تھا آپ جیسے لوگ میڈیا کے گھوڑے پر سوار چل نکلے۔صحافت کا نشان ضیاء شاہد ہیں صلاح الدین تھے الطاف قریشی ہیں۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان کے پاس پاکستان کا بڑا میڈیا گروپ نہیں ہے۔
چودھری رحمت علی کو متنازعہ بنا کر تم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ہم پورے بائیس کروڑوارثان چودھری رحمت علی کسی غدار کی اولاد سے سرٹیفیکیٹ نہیں چاہتے ان کا کردار تاریخ متعین کر چکی ہے وہ عظیم نڈر ہیرو تھے آج جس پانی کے لئے خبریں اور ضیاء شاہد چیخ رہے ہیں چودھری رحمت علی نے تقسیم سے پہلے کہا تھا کہ دریائوں کے سوتے لو اس کے بغیر پاکستان سوکھ کے مرے گا اور کیا ہو رہا ہے پانی سینکڑوں فٹ دور چلا گیا ہے اور ہم ڈیم نہیں بنا رہے اس لئے کہ سندھ نہیں مانتا اس لئے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا اس نوشہرہ کو تو میں نے آنکھوں سے ڈوبتا دیکھا ہے کیا کر لیا لسانیت پرست سنپولیوں نے اور ان سے ووٹیں لینے والوں نے۔چودھری رحمت علی قومی ہیرو ہیں قومی ہیرو رہیں گے۔