تحریر : میر افسر امان دنیا جانتی ہے کہ تقریبا! پون صدی قبل ١٩٤٨ء میںیہودیوںنے مظلوم فلسطینیوں کے وطن پر برطانیہ، امریکا اور کیمونسٹ روس کی اشیرآ باد سے اور غیر منصبانہ بلفور معاہدے کی آڑ میں عرضِ فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ پھر دنیا بھر سے یہودی، اپنے اس نام نہاد وطن میں منتقل ہونے شروع ہوئے۔ انہوں نے فلسطین کے اصل باشندوں کو زور، ذبردستی ، لالچ ،محاصرے اور جنگ کے ذریعے سے بے دخل کیا۔ ان کی زمینوں پر قبضے کرنا شروع کیے۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر دنیا بھر سے بلائے گئے یہودی آبادکاروں کی بستیوں پر بستیاں آباد کرنا شروع کیںجو اب تک رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اس ظلم کے خلاف فلسطینی اقوام متحدہ گئے۔ اقوام متحدہ نے اس ناجائز قبضہ کے خلاف درجنوں قراردیں منظور کیں۔ مگر امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کے سر سے جوں تک نہیں رینگی اور الہا اعلان اقوام متحدہ کی قرادادوں کو ٹھکراتا چلا آ رہا ہے۔اوسلو معاہدے میں فلسطین کی آزاد حکومت کو تسلیم کیا گیا۔ آج تک یہ معاہدہ مکمل نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو مبصر کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔
یہودی فلسطین میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد اس پر بھی نہیں روکے اور جنگ کر کے پڑوس کے عرب ملکوںکے علاقوں، جس میں شام کی گولان کی پہاڑیاں، مصر کا سینا کا اور اردن کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اپنے پارلیمنٹ کے ماتھے پر یہ ماٹو تحریر کر دیا کہ” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فراط تک ہیں” اسرائیل خفیہ طور پر توسیع پسندانہ حکمت عملی پر عمل کرتے پڑوسی عرب ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے اسی ڈاکٹرئن پر عمل پیرا ہے۔
ویسے تو ملک میں نام نہاد جمہوریت ہے۔لیکن اپنے مذہبی کتاب تورات کے مطابق ایک کٹر مذہبی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ یہودیوں کے مذہب کے مطابق صرف یہودی ہی اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں ۔ باقی انسان کیڑے مکوڑے ہیں۔ تاریخ میں جس بھی قوم نے ان کو پناہ دی اس کے ساتھ دھوکا کیا۔ یہودی مورخ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں اسلامی غلبے کے دوران اسلامی ملکوں میں ہمیں امن نصیب ہوا۔لیکن اس کے بدلے ترکی کے نیک سیرت بادشاہ سلطان محمد سے دھوکا کیا۔صلیبیوں سے مل کر اس کی خلافت ختم کروائی۔ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا۔کچھ ہی مدت گزری ،یعنی بیسوی صدی کے تقریباً پہلے آدھے حصے میں ایک جرمن عیسائی حکمران ہٹلر نے ان سے اتنا بدزن تھا کہ ان کا قتل عام کیا۔ جسے مبالغہ کرتے ہوئے یہودیوں نے ہولو کاسٹ کا نام دیا ہوا ہے۔ دنیا سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں ڈال کر ختم کیا گیا تھا۔ امریکا کی مدد سے اسرائیل غیر اعلانیہ طور پر ایٹم بم بھی بنا چکا ہے۔ امریکا اور مغربی ملکوں کی مدد سے اپنی فوجی قوت اتنی بڑھا لی کہ دنیا کو فوجی اسلحہ درآمد کرنے لگا ہے۔ سود ی نظام کی وجہ سے دنیا کی دولت پر قابض ہے۔ دنیا میں سرمایادارانہ نظام، بنکینگ نظام، الیکٹرنک ، پرنٹ میڈیا اور اسلحہ سازی پر یہودی قابض ہیں۔عیسایوں کو اپنے فریب سے ملا کر دینا میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی تجزیہ نگاروں کی کتابوں کے مطابق١١٩ کا واقعہ بھی یہودیوں کی تخلیق ہے۔
٣٠ مارچ ١٩٦٧ء کو یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں پرقبضے کا اعلان کیا تھا ۔ اس وقت ہزاروں فلسطینی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ زمین کے مالک فلسطینیوں نے اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خلاف اپناانسانی حق استعمال کرتے ہوئے ہر سال احتجاج کرتے رہتے ہیں۔قابض اسرائیل فوجی ہر سال ان مظلوم فلسطینیوں پر گولیاں چلاتے ہیں ان کو شہید کرتے رہتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس سال بھی فلسطین کی ساری سیاسی،سماجی جماعتوں اور تنظیموں کی اپیل پر اسرائیل کے کونے کونے میں خاصبانہ قبضہ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ اس پراُمن جلوسوں کے نہتے شرکاء پر اسرائیلی درندہ صفت فوجیوں نے ڈاریکٹ فائرنگ کھول دی ۔جس سے ١٥ مظلوم فلسطینی شہید ہو گئے ۔١٤٠٠ سے زاہدزخمی ہوئے۔ اس زخمیوں سے مقامی ہسپتال بھر گئے۔ ان شہیدوں میں میں٧ یونس خان میں اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور ٥٠٠ زخمی ہوئے۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحدی مقامات کے قریب چھ ہفتوں پر مشتمل احتجاج بھی شروع کیا جو امریکا کے اعلان کہ ١٥ مئی٢٠١٨ء تک امریکی ممکنہ طور پر اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یوروشلم(بیت المقدس) شفٹ کرے گا۔ جبکہ بیت المقدس فلسطینیوں کا دارلخلافہ ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے قبلہ اوّل ہے اس لیے پونے دو ارب مسلمانوں کی حقیدت کا مظہر ہے۔جسے اسرائیل نے ذبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔ فلسطینی مظاہرہ کرنے کے لیے غزہ میں اسرائیل کی سرحد سے ٧٠٠ کلومیٹر دور لاکھوں فلسطینی جمع ہوئے تھے۔
ان کو روکنے کے لیے اسرائیل کے١٠٠ ماہر نشانہ باز متعین کیے گئے۔جو مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں آنسو گیس اور نشانہ باندھ کرسیدھی گولیاں چلاتے رہے۔ اس سے ایک ہفتہ میں ٢٣ فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ مظاہرے شروع ہونے سے قبل ہی ،غزہ کا رہائشی یونس خان میںاپنی کھیتوں میں کام کرنے والا کسان اسرائیل کے توپ کے گولے کا نشانہ بنا ۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کی مظاہرین نے روڈ پر ٹاہر جلائے اور دوسروں کو احتجاج کرنے پراُکسانے ، فوج پر پتھرائو اور پٹرول بم پھینکے کیا۔اس لیے فوج نے فائر کھولے۔ کیا سفاکیت اور دہشت چھپانے کے لیے یہ اسرائیلی فوج کابھونڈا، بیہودہ بہانہ نہیں؟کسی بھی نہتے گروہ کا اپنے حقوق کے لیے پر اُمن مظاہرہ کرنے جائز ہے۔ کیاایسے مظاہرین کو اسپیشل نشانہ بازوں کی گولیوں سے بھون ڈالنا بین القوامی طور پر مانا گیا ہے۔ ایسے موقوں پر واٹر کین،لاٹھی چارج یا بیت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن زمین کے مالک فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر کے انہیں صابرہ اور شیتلہ کے مہاجر ر کیمپوںس میں دھکیل دینے والے اسرائیل سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ظالم یہودیوں نے ان فلسطینیوں کومہا جر کیمپوںمیں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا۔ مہاجر کیمپوں پر ظالمانہ بمباری کی ۔ جان بچانے کے لیے کچھ قریب کے عرب ملکوںمیں ہجرت کی زندگی کے دن گزار رہے اور کچھ دنیا میں تتر بتر ہو گئے ہیں۔ فلسطینی ہر سال اپنے زمینوں مکانوں میںجانے کے لیے مظاہرے کرتے ہیں اور ظالم اسرائیلی ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ حماس کے اسماعیل ہنیہ نے اس احتجاجی مارچ کو تمام فلسطینیوں واپس اپنے گھروں میں آنے کا نقیب قرار دیا۔فلسطینی کئی بار ثابت کر چکے ہیں کہ جب کوئی قدم اُٹھاتے تو اسے پورا کرتے ہیں۔اسرائیل کو فلسطین کی ایک اینچ زمین کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔غزہ کی٢٠ لاکھ آبادی میں ٧٠ فیصد آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کو ١٩٤٨ء میں ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔ یہ اپنے گھروں میں جانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔فلسطین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے نے مطالبہ کیا ہے نہتے پرامن مظاہرین پر سیدھے گولی چلانے والوں کو انصاف کے کہٹرے میں لایاجائے۔ اقوام متحدہ کے سیکر ٹیری نے اسرائیل سے کہا کہ نہتے مظاہرین پر فائرنگ کرنا بند کرے۔ عرب لیگ نے فلسطینیوں کی شہادت پرعالمی عدالت انصاف کے اندر مقدمہ قائم کیا جائے۔
صاحبو!کشمیر،فلسطین اور افغانستان کے مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان متحد ہو کر ہنود ، یہود اور نصارا کا مقابلہ کریں۔جس دن مسلمان متحد ہوگئے یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔اللہ امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے ۔آمین۔