تحریر : روہیل اکبر میاں ثاقب نثار پاکستان میں جرات، بہادری، دلیری اور حوصلہ کی علامت ملک کی تاریخ میں انہوں نے وہ کام کردیے ہیں جو آج تک کسی آمر نے کیے ہیں اور نہ ہی کسی جمہوری سیاسی حکمران نے کیے ہیں حالانہ عوام کے ووٹوں سے عوام کی خدمت کرنے کے دعوے داروں کا یہ کام ہے کہ وہ حق دار کو اسکا حق دیں کہیں ناانصافی نہ ہونے دیں عوام کی بنیادی ضروریات انکے دروازے تک پہنچائیں اور جو سرکاری ملازم کہیں کوئی ہیرا پھیری یا دو نمبری کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے نشان عبرت بنا دیا جائے کیونکہ پاکستان کا ہر سرکاری ملازم عوام کی خدمت کے لیے ہوتا ہے اور عوام ہی اسے اپنے پیسوں سے تنخواہ اداکرتے ہیں پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں سے تقریبا آدھے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں جن کے پاس ایک وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے مگر وہ غربت کی دلدل میں گردن تک ڈوبے ہونے کے باوجود جب ماچس کی ایک ڈبیا یا یا 60پیسے کی کال کرتے ہیں تو اسے اس پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
غریب عوام کے خون پسینے سے اکٹھا ہونے والا یہ روپیہ ،روپیہ جب حکومتی خزانہ میں پہنچتا ہے تو وہاں پر بیٹھے ہوئے سیاسی ٹھگ اور انکے ہم نوالہ و پیالہ سرکاری ملازم اسکی بندر بانٹ شروع کردیتے ہیں کبھی ایک پلڑے میں مال زیادہ چلا جاتا ہے تو کبھی دوسرے پلڑے میں یہاں تک کہ سبھی کچھ ختم ہوجاتا ہے اور یوں گذشتہ 70سالوں سے کھیل ختم پیسہ ہضم والا سلسلہ چل رہا ہے جو اس نطام سے اچھے خاصے مستفید ہوچکے ہیں اور جو ہورہے ہیں وہ اس نظام کو ملکی ترقی کا واحد راستہ سمجھتے ہیں کیونکہ اسی طریقہ واردات سے نہ صرف انہوں نے اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں اپنے بچوں کے نام بھی اربوں روپے کے کاروبار کیے دنیا کے ہر ملک میں جائیدادیں اور بنک بیلنس بنایا بلکہ انکے جتنے حواری ہیں اوراس کھانے پینے کے نظام میں انکے ساتھ ہیں انہوں نے بھی اپنے خاندانوں کو خوشحال کرلیا شائد ان لوٹ مار کرنے والوں کے نزدیک پاکستان کی خوشحالی اسی کا نام ہے کہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح پیسے کے لحاظ سے مضبوط بنا لو آج انہی کے بچے بیرون ملک اور اندرون ملک اعلی سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں عوام جو پہلے بھی گندا پانی پیتے تھے اب بھی وہی پانی پی رہی ہے۔
حالانکہ خادم اعلی صاحب نے صرف صاف پانی کی فراہمی کے لیے 40کروڑ روپے لگا دیے مگر پانی پھر بھی صاف نہ ہوسکا ہمارے سیاسی وڈیروں نے ہمارے پورے نظام کر کرپشن زدہ بنا دیا لوٹ مار اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ اس حد تک پروان چڑھا دیا گیا کہ ایماندار ،محب وطن اور ملک و قوم کی خدمت کرنے والا شخص حکمرانوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چھبنا شروع ہوگیا چھوٹے عہدے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بڑے عہدوں پربٹھایا گیا تاکہ وہ حکمرانوں کے ہر حکم کے سامنے لیٹنا اپنا فرض سمجھ لیں اپنے خاص کرم فرماؤں کو نوازنے کے لیے میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں کی گئی اتوار کو جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے نشتر میڈیکل کالج کے وی سی کی تقرری کا معاملہ دیکھا تو وہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ کیاانسانوں کے کالج کو جانوروں کا ڈاکٹر چلائے گا اسکے ساتھ ہی انہوں نے پنجاب میں کی گئی تمام تقرریوں کا نوٹس بھی لے لیا اور ساتھ ہی خادم اعلی کی طرف سے بنائی جانے والی کمپنیوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی جہاں پر حکمرانوں نے اپنے چہیتے افسران کو تعینات کر رکھا ہے۔
میرٹ سے ہٹ کر تعینات ہونے والے اور خادم اعلی کے منہ بولے بھائی جناب احد چیمہ کے کارنامے عوام کے سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں جنہوں نے حکمرانوں کے ہر حکم کو اپنے اوپر ایسے طاری کیا جیسے نعوذ بااللہ انہیں آسمان سے حکم سنایا جاتا ہو کیونکہ بڑے بڑے عہدوں پر جب چھوٹے لوگوں کو لگایا جاتا ہے تو پھر وہ کسی بھی غیر قانونی کام سے انکار نہیں کرسکتے اس وقت پنجاب میں تقریبا ہر ادارے اور اتھارٹی کاجو سربراہ تعینات ہے وہ اپنے قد سے بڑی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ میرٹ پر پورا اترنے والے سینئر افراد صرف حکمرانوں کی خوش آمد نہ کرنے کی وجہ سے اپنے سے جونیئر افسر کی ماتحتی میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور یہی ومجبور افسران اصل میں عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں ایک تو انہوں نے اپنے ساتھ زیادتی برداشت کی کوئی ہے اور اوپر سے حکمران اور وہ جونیئر افسران جو اعلی عہدوں پر تعینات ہیں اور دن رات عوام کے نام پر عوام کو لوٹ رہے ہیں اور وہ سب خاموشی سے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ملک کے تقدیر سے کھیلنے والوں کا جب یوم حساب ہوگا تو انکے جرائم پر خاموش رہنے والے بھی شریک جرم ٹھہرائے جائیں گے صرف ایک چیف جسٹس ملک کو درست نہیں کرسکتا ہر ادارے میں سے ایک ایک چیف جسٹس پیدا ہونا چاہیے جو ظلم کی ہر دیوار کے سامنے کھڑا ہوسکے اپنا حق مانگ سکے کیونکہ جو اپنا حق نہیں لے سکتا وہ کسی اور کو اسکا حق بھی نہیں دلا سکتا سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو چیف جسٹس بنانا ہے بے خوفی ،دلیری اور ہمت سے اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنا ہوگی کیونکہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں نے اپنے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سا انتظام کررکھا ہے اسی لیے تو جمہوریت کو بہترین ہتھیار کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کھانے پینے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور جو ہماری جمہوریت کی نرسریاں جن میں یونین کونسلز شامل ہیں وہاں سے ہے لوٹ مار کی بنیادی تعلیم شروع ہوجاتی ہے جبکہ آمریت میں بھی کھل کر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں اس نظام لوٹ مار میں چند مخصوص لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کو غلط ثابت کرنے کے لیے اچھے کام کرنے کا ٹھیکہ بھی لیا ہوتا ہے اور یہ دونوں نظام اس وقت تک عوام کی خدمت نہیں کرسکیں گے جب تک عوام کو اپنا حق لینے کا طریقہ نہیں آئے گا رہی بات میاں ثاقب نثارکی تو انہوں نے بطور چیف جسٹس جس دلیری اور جرات سے فیصلے کیے ہیں اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے سامنے جس طرح قانون کی حکمرانی قائم کررکھی ہے اس پر پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہیں اور بطور قوم ہمیں بھی انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکمرانوں کے غیر قانونی کاموں پر کم سے کم آواز تو بلند کرنی چاہیے۔