صحافت نہیں ہے آساں

Journalism

Journalism

تحریر : ملک محمد سلمان
تین گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور ذیشان بٹ کا جسم ایک کربناک آواز کیساتھ خاموش ہوجاتا ہے، مالک حقیقی سے ملنے سے قبل مقتول صحافی کی تکلیف سے کراہتی ہوئی آواز انتہائی دردناک تھی، جسے سن کر روح تک کانپ جاتی ہے، سمبریال سیالکوٹ کے سنیئر صحافی ذیشان بٹ کو 27 مارچ کی دوپہر اس وقت شہید کیا گیا جب وہ دکانداروں پر عائد کیے جانے والے ٹیکس کے حوالے سے معلومات لینے یونین کونسل بیگ والا سے واپس جارہا تھا،تھوڑی دیر قبل چیئرمین یونین کونسل عمران چیمہ سے اس کی تلخ کلامی ہوئی تھی ۔مقتول صحافی ذیشان بٹ نے پولیس کو اگاہ کرنے کے بعدچیئرپرسن ضلع کونسل حنا ارشد کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ یوسی چیئرمین نے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں، ٹیلی فون کال کے دوران ہی اس پر فائرنگ کردی گئی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔روایتی سستی کے برعکس تقریباً پانچ منٹ میں پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی لیکن قاتل ”آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل”کے مصداق فرار ہوچکے تھے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بنا ثبوت اور کسی عدالتی فیصلے کے ہم خود ہی منصف بن کر اپنی دانست کے مطابق کسی کو بھی مجرم قرار دے کر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ایسا ہی کچھ حال مذکورہ سانحے میں نظر آرہا ہے۔مقتول ذیشان بٹ کی آخری ٹیلی فونک کال کو بنیاد بنا کر ہر کوئی چیئرمین یونین کونسل عمران چیمہ کو قاتل بنا کر پیش کر رہا ہے۔مخالف سیاسی گروہوں نے اپنے سوشل میڈیا سیل کے زریعے طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مقتول صحافی کے قاتلوں کو ہر قیمت پر سزا ملنی چاہئے۔اگر واقعی عمران چیمہ قاتل ہے تو اسے عبرت ناک سزا ملنی چاہئے ۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ” حب علی نہیں بغض معاویہ ”کے مصداق مخالف سیاستدانوں کومقتول سے ہمدردی نہیں بلکہ اس بات کی خوشی نہیں سکون لینے دے رہی کہ پاکستان مسلم لیک(ن) کا چئیرمین پھنس رہا ہے۔لاشوں کی سیاست کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔جس دھمکی کا ذکر مقتول رپورٹر نے کیا ایسی بیسوں دھمکیاں ہر روز صحافیوں کو ملتی ہیں ،اسی مقتول صحافی کے موبائل کا مکمل ریکارڈ لیا جائے تو آپکو سیاستدانوں اور انتظامیہ کی طرف سے بے شمار دھمکی آمیز کالز اور سچ کی آواز نہ بننے کی بدلے بنڈل آفرز کے ثبوت مل جائیں گے۔نڈر صحافی ذیشان بٹ انتظامیہ اور بیوروکریسی کی کرپشن و لاقانونیت کے خلاف سب سے توانا آواز تھا، ایسے میں یہ بھی ممکن ہے کہ سیاسی رنگ دینے کی آڑ میں اصل ملزمان کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ڈی پی او سیالکوٹ اسد سرفراز ایک اچھے انتظامی آفیسر ہیں اور اس کیس کو خود دیکھ رہے ہیں،اب تک متعدد افراد کو شک کی بنا پر حراست میں لیکر تفتیش کی جاچکی ہے اور مقتول کا موبائل اور دیگر اشیاء بھی فرانزک کیلئے بھجوائی گئی ہیں۔مقتول صحافی کے اصل قاتلوں تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ کرنے اور سیاسی پریشر ڈالنے کی بجائے پولیس کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے۔

عالمی سطح پر پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں سو سے زائد صحافیوں کا بیہمانہ قتل کیا گیا جس میں سے محض 3 کیسز کی عدالت میں سماعت ہو سکی۔صحافی قتل ہو جاتے ہیں مگر قاتل پکڑے نہیں جاتے۔بدقسمتی سے صحافی، جو خبروں اور اطلاعات تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہیں، انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قانونی تحفظ کی عدم موجودگی کے باعث اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران صحافیوں پر تشدد، انہیں ہراساں کرنا، جان سے ماردینا یا بری طرح زخمی کردینا معمول بن گیا ہے۔صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے پولیس اکثر صحافیوں کے خلاف ہی چھوٹے پرچے درج کرتی نظر آتی ہے۔

اگر کوئی صحافی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پولیس کی کرپشن ،لاقانونیت اور مجرموں کی پشت پناہی پر قلمی فریضہ ادا کرتا ہے تو پولیس ایسے گستاخ کو سبق سکھانے کیلئے اپنے ٹائوٹوں کے زریعے بے بنیاددرخواستوں پریک طرفہ ایف آئی آرکا اندراج کرکے صحافیوں کو پریشرائز کرتی ہے تاکہ من پسند اور سب اچھا کی خبریں لگوائی جاسکیں۔ہمارے علاقائی صحافی بھی بھولے بادشاہ ہیں وہ جعلی ایف آئی آر کو خارج کروانے کیلئے”انصاف دو”کے نعرے لگاتے ڈی پی او کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔چند حاضریوں اور احتجاج کے بعد ایف آئی آر خارج ہوتی ہے توتمام اخبارات میں انصاف کا بول بالا اور ڈی پی او کی جے جے کار کی خبریں شہ سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ بیچارے علاقائی صحافی ا س سے بے خبر ہوتے ہیں کہ جعلی ایف آئی آر کے زریعے سرکش صحافیوں کو لگام ڈالنے کے ا س طریقہ واردات کا اصل ماسٹر مائنڈ تو ڈی پی او خود ہوتا ہے۔

صحافی نہ صرف معاشرے کا چوتھا ستون ہیں بلکہ معاشرے کی آنکھ بھی ہیں۔اسوقت پاکستان میں اگر کوئی سب سے غیر محفوظ ہے تو صحافی ہیں۔صحافتی شعبے کا ہر فرد دوسروں کے مسائل کو تو بیان کرتا ہے ۔قلم اٹھائے سارا سارا دن ہر کہیں اپنا فرض نبھاتا نظر آئے گا لیکن اگر اسی صحافی کو کچھ ہو جاتا ہے تو سب بھول جائیں گے کہ یہ بھی ہمارے ہی معاشرے کا ایک فرد تھا۔

دل حقیقتاً رو رہا ہے،مقتول ذیشان بٹ اور اس کے بچوں کو کیسے دربدر انصاف کے حصول کے لیے مارا مارا پھرنا پڑے گا کوئی نہیں جانتا۔وہ انصاف کے حصول کے لیے بھاگیں یا پھر گھر کے ٹھنڈے پڑے چولہے کو جلانے کے لیے تعلیم کی قربانی دے کر کہیں ملازمت کریں یا مانگتے پھریں گے؟۔ کیسا ظلم ہے کہ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی آواز بننے والے صحافی کی آواز بننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے جب تک صحافی برادری ایک نہیں ہوں گے تب تک ہم اسی طرح انتظامی افسروں، وڈیروں جاگیرداروں اور ان کے نام نہاد غنڈوں کی گولیوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔۔ کب تک خبر پہنچانے والے خود خبر بنتے رہیں گے؟؟؟

Malik Salman

Malik Salman

تحریر : ملک محمد سلمان