تحریر : نجم الثاقب ترقی یافتہ ریاستوں نے جہاں عوام الناس میں غریب و امیر کے طبقاتی فرق کو زائل کرنے کے لئے بہترین معاشی نظام مرتب کئے وہاں سماجی سسٹم کو بھی اس طرح وضع کیا ہے جس میں ہر شہری کو بہترین بنیادی انسانی ضروریات زندگی برابری کی سطح بغیر فرق و امتیاز کے ساتھ تمام سہولیات و سائل کے ساتھ میسر آ سکیں۔ روز گار، صحت اور تعلیم یہ بنیادی انسانی ضروریات کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نظامِ صحت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس لئے ان ممالک میں ترقی و خوشحالی نمایاں ہیں۔ ریاست اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے یکساں معیاری تعلیمی نصاب اور معیاری تعلیمی سسٹم کا فرض بااحسن طریقے سے سر انجام دے رہی ہے۔
پاکستان 70 سالوں کے بعد بھی انگریزوں کے چھوڑے ہوئے تعلیمی نظام کو لے کر چل رہاہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک پاکستان میں فروغ تعلیم پر قومی آمدنی(جی ڈی پی) کا صرف دو اعشاریہ چھ فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تعلیمی نظام کا بڑا مسئلہ “نصاب تعلیم کا فرق “ہے۔ پاکستان میں نصاب تعلیم کوتین کیٹگریز 1 : اْردو میڈیم ، 2 : انگلش میڈیم ، 3 : مدارس، دینی درسگاہیں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اردو میڈیم سرکاری اور گلی محلوں کے اندر قیام سکولوں میں اْردو میڈیم نصاب کو پڑھایا جا رہا ہے تمام مضامین کا نصاب “اْردو” میں ہے۔ گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد متوسط اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے ، خاندان کے سربراہ مہنگائی ، بیروزگاری اور کم آمدن کے باعث سرکاری سکولوں کے اخراجات با مشکل ہی پورے کرتے ہیں۔ ایک بچہ گھر میں پنجابی،سرائیکی، بلوچی، سندھی یا پشتو بولتا ہے جبکہ عملی زندگی میں اسے اردو بولنا ہوتی ہے لیکن اس کا نصاب انگریزی میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباو کا شکار ہوجاتا ہے۔انگریزی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھائے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن پورے تعلیمی نظام کو انگریزی خطوط پر استوار کرنا طلباء کے ساتھ ظلم ہے جس کے نتیجہ میں ذہنی طور پر ایسا کنفیوزڈ معاشرہ تشکیل پارہا ہے جو اردو اور انگریزی کے درمیان اپنا تشخص کھو چکا ہے۔ اس لئے سکولوں میں طلباء کی بڑی تعداد کو انگریزی زبان بولتے، سنتے ، سمجھتے اور پڑھتے ہوئے خوف اور ہیبت محسوس ہوتی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت زار بھی کسی المیہ فکریہ سے کم نہیں ہے، قصبوں ، گاؤں اور دیہاتوں کی کھلی فضا وں میں ، درختوں کی چھاؤں میں ، کچے کمریوں اور کوٹھریوں کے اندر، مٹی وکچے فرش ، ٹاٹ اور چٹائی جیسے فرسودہ حالات و ماحول میں طلباء تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ موسم کی شدت ، بارشیوں اور ناگہانی آفت صورت حال میں کئی کئی دن تک سکو ل نہیں جا پاتے۔ مستقبل کے ننھے معمار آج بھی تختیاں پر قلم دوات کی سیاہی سے علم کی الفاظ کو اپنے ذہینوں میں نقش کر نے کے لئے کوشش ہیں۔
انگلش میڈیم یہ تعلیمی ادارے و اسکول ملک میں احساسِ تفاخر کے ساتھ زندہ رہنے والے افراد اور مغربی ماحول وکلچر کے خواہاں شخصیات کے پسندیدہ ہیں۔شہروں کے کچھ اسکول تو اتنے معروف و مقبول ہوچکے کہ ان میں داخلہ حاصل کرنا معاشرتی فخر و اسٹیسٹ کو کی اب نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سکول مالکان نے سرمایہ دارانہ سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے بڑے ناموں اور برانڈ کی فرنچائزبزنس اور کاروبار کے طور پر حاصل کر رکھی ہیں ۔ ان سکولوں میں بھاری فیسیں اور تعلیمی اخراجات بہت زیادہ ہونے سے صرف ان میں ہائی کلاس جنٹری، ڈپلومیٹ ، بیورکریٹس ، سرمایہ داروں، وڈیروں اور سیاست دانوں کے بچے ہی اعلی تعلیم یافتہ ماحول کو انجوائے کر سکتے ہیں ، یہا ں کی دنیا ہی الگ ہے۔ کئی نامور اسکولوں میں داخلہ ٹیسٹ لینے کے بعد معاشرتی اسٹیٹس اور بلند تر معیار کا احساس دلانے کے لئے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی انٹرویو لیا جاتا ہے۔
انگلش میڈیم کی ان درسگاہوں میں اردو اور اسلامیات کے مضامیں کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ سارا فوکس انگلش ، سائنس ، کمپیوٹر اور بیرون ممالک کے تعلیمی معیار (اے ، او لیول ) کے فروغ پر صرف کیا جاتا ہے۔ جد ید اعلی تعلیم اور یونیورسٹی سے فارغ تحصیل اساتذہ اکرام کو بہترین پر کشش تنخواہوں پر ہائیر کیا جاتا ہے۔ سکول کے اوقات میں بچوں سے انگریزی میں بات چیت کی جاتی ہے اور کسی دوسری زبان میں بات کرنے پر پابندی کے ساتھ اکثر سکولوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان طلباء کو اْردو اور اسلامیات کا شعور و اصلاح نہ مل پانے پر عملی زندگی میں کئی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ نچلے اور درمیانے طبقے فکرسے تعلق رکھنے والے شہریوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ایسی درسگاہوں کا سوچ سکیں۔
مدارس و دینی درسگاہیں مدارس اور درسگاہوں میں اسلامی نصاب تعلیم پر اکتفا کیا جا تا ہے۔مدارس دینیہ نے قوم کو مختلف مکتبہ ہائے فکر عطاء کرکے دیوبند ،بریلوی ،وہابی،اسکے علاوہ مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور وہاں اثری تعلیم کے ٹھکیداروں نے ساری قوم کو درجن بھر طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ بے سہارا، مفلس اور یتیم بچوں کو مجبوراً مدارس میں دینی تعلیم کے لئے داخلہ کر واد یا جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا والدین مہنگائی ، بے روزگاری اور بھوک کے ساتھ دیگر ذمہ داریوں کا بوجھ نہ اٹھانے کی غرض سے اپنے بچوں کو مدارس میں ڈال دیتے ہیں۔عطیات، صدقات و خیرات ا ور زکوۃ کی مد میں آنے والے فنڈ ان بچوں کو بنیادی ضروریات زندگی کے مواقع میسر آتے ہیں۔ مدارس کے نظر میں انگلش، سائنس ، کمپیوٹراور دیگر جدید تعلیم کی کوئی وقت نہیں دی جاتی ہے ، اس کی ایک بڑی ان نصاب کیلئے اساتذہ اکرام کا مدارس میں سرے سے موجود نہ ہونا ہے۔
ہمارے ملک میں نظام تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجوہات میں سب سے پہلے حکومتی کی عدم توجہ و دلچسپی ، لاپروائی، غیر حقیقی منصوبہ بندی اور ملک کے سیاسی، معاشرتی اورمعاشی حالات و واقعات ہیں۔حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان کی قومی زبان ہی کو بنیادی طور پر ذریعہ تعلیم و تدریس رکھے۔ ماضی کے اندر کئی حکومتوں نے زرِکثیر خرچ کر کے ماہرین تعلیم سے کئی بار تعلیمی پالیسی تو تشکیل کر دی مگر ہر تعلیمی پالیسی کو سفارشات تک محدود رکھا گیا چنانچہ کسی بھی تعلیمی پالیسی کے عمل پذیر ہو جانے کا موقع نہ آ سکا۔ انگلش کو ایک مضمون اور کورس کے طور پر پہلی جماعت سے ہائی لیول تک جدید تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے مگر انگریزی زبان کی ترویج کا ذریعہ اور پاکستان کے قومی احساسات و جذبات کو نظرانداز کر کے نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کی گرفت میں دے دینے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ مدارس میں رجسٹریشن کے عمل کو مکمل کرکے تعلیمی سسٹم کو حکومتی سربراہی میں رائج کیا جائے۔ پاکستان میں رائج نظام تعلیم ، تعلیم و تدریس کی کتب کو جدید سائنسی علوم کیساتھ قرآن و سنتِ کی روشنی میں ماہرینِ تعلیم کی محنت سے مرتب کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو گروس نیشنل پروڈکٹ کا نمایاں حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔براعظم ایشیا میں نیشنل گروس پروڈکٹ پر بھارت 3.3فیصد، نیپال: 2.3 فیصداور بنگلہ دیش : 2.2 فیصد خرچ کر رہا ہے۔ا ب ضرورت اس امر کی ہے پاکستان بھی گروس نیشنل پروڈکٹ کا 4فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا تاکہ تعلیمی مسائل پر قابو پایا جا سکے۔