معجزہ معراج

Shab-e-Miraj

Shab-e-Miraj

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
معجزہ قدرت الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے، جبکہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس جامع المعجزات ہے۔پہلے انبیاء علیہم السلام کو جو معجزے عطاء کئے گئے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں جمع ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات میں سے کئی جمادات نباتات اور حیوانات سے متعلق ہیں، کنکریاں آپ کے ہاتھ میں تسبیح کرتیں، شجر و حجرآپ پر سلام بھیجتے اور سجدہ کرتے، ہرنیاں آپ کو ضامن تسلیم کرتیں، اونٹ آپ سے افسانہ غم بیان کرتے، احادیث و سیرت مبارکہ کی کتب میںایسے متعدد خوش نصیب درختوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی اور مقام نبوت کو پہچانا۔ کئی درخت آپ کی پکار پر زمین کو چیرتے ہوئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اقرار نبوت کی سعادت حاصل کی۔ تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے عملی معجزات عطاء فرمائے، لیکن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہزاروں کی تعداد میں عملی معجزوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا علمی معجزہ قرآن پاک بھی عطاء فرمایا ۔ جبکہ سفرِ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا نہایت عظیم الشان واقعہ اور محیر العقول معجزہ ہے۔ معراج کے لغوی معنی انتہائی عروج کے ہیں، دنیا میں جتنے انبیاء تشریف لائے ان کی شان اور مرتبے کے مطابق ان کی معراج ہوئی۔ کسی کو معراج آتش نمرود میں ہوئی، کسی کو کنویں میں ،کسی کو مچھلی کے پیٹ میں، کسی کو ہوائی تخت پر ،کسی کو کوہ طور پر ، اور سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی معراج عرش عظیم پر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر بلایا ،آپ کے ظاہر وباطن کو آبِ زم زم سے پاک صاف کرکے حکمت و ایمان عطاء فرمایا، اور اپنے قربِ خاص و خصوصی انعامات سے نوازا۔انبیائے کرام سے ملاقاتیں کروائیں ، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایااور نیکوں کے اجر و ثواب اور بروں کے انجام و عذاب کانظارہ کروایا۔ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کو قیامت تک اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا گیا ، اور فرضیت نماز کا عظیم الشان تحفہ دیا گیا۔

اس طرح صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا، نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو عطاء فرمایا۔ شب معراج میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لئے نماز کا تحفہ لے کر واپس آرہے تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت فرمایا ”آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” ہر دن میں پچاس وقت کی نمازیں”۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ” آپ کی امت ہر دن پچاس وقت کی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی ۔ خدا کی قسم !میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکاہوں اور بنی اسرائیل کو اچھی طرح آزما چکا ہوں آپ اللہ تعالیٰ کے پاس تشریف لے جائیے اور تخفیف کی درخواست کیجئے”۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گئے اور اللہ تعالیٰ سے بار بارتخفیف کی درخواست کی یہاں تک کہ پانچ وقت کی نمازیں باقی رہ گئیں۔حضرت موسیٰ نے پھر تخفیف کرانے کی درخواست کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ ربّ العزت سے بہت سوال کر چکا ہوں اب مجھے شرم آتی ہے میں اسی پر راضی اور خوش ہوں۔ یہ ادائیگی میں پانچ وقت کی نمازیں ہیں، مگر ثوا ب میں پچاس وقت کی ہیں۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین تحفہ نماز کی صورت میں عطاء فرمایا۔ قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز کی مسلمہ اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”الصلوٰة معراج المومنین ”نماز مومنین کی معراج ہے۔ اس ارشاد نبوی کے مطابق جو شخص دن میں پانچ وقت نماز ادا کرے گا گویا وہ پانچ مرتبہ معراج کی برکت وسعادت حاصل کرے گا۔ بلاشبہ نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے، جس میںبندہ دنیا کی تمام چیزوں سے یکسو ہوکر اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے تمام اعضاء کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ نماز کے اہتمام کرنے کے نتیجہ میں بندہ کے بہت سارے اعمال اور افعال سیدھے راستے پر آجاتے ہیں اور اس نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کا خوگر اور برائیوں سے دور فرمادیتے ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے”۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ نماز میں مشغول ہو جایا کرتے ۔ سورة البقرہ کی آیت 45 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد چاہو”۔ نماز آسمانی تحفہ ہے جو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلاکر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ اگر یہ امت اس کا اہتمام کرے گی تو دنیا میں اور آخرت میں بھی کامیاب ہو گی اور اپنے خالق و مالک کی نظروں میں معزز رہے گی۔ اللہ پاک ہمیں پابندی نماز اور اعمال صالحہ کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل : ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033