چوہدری شجاعت حسین کا شمار منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔یہ دوبار وزیرداخلہ بھی رہ چکے ہیں،2004ء میں وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے استعفی کے بعددو ماہ کے لیے وزیراعظم بھی رہے۔یہ ان دنوں بچی کھچی مسلم لیگ ق کے صدر بھی ہیں۔چوہدری شجاعت حسین پاکستانی سیاست میں کا ایسا کردار ہیں جس کی فعالیت پانچ دہائیوں تک پھیلی نظر آتی ہے۔سیاسی میدان میں ان کا رول کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کے حوالے سے سیاست میں ’’کہاوتیں‘‘ مشہور ہیں جنہوں نے نئے ’’سیاسی محاورے‘‘ متعارف کرائے ۔ ان کاآبائی تعلق گجرات سے ہے ،گجرات سے ہی اسمبلی میں پہنچنے والے چوہدری برادران سیاسی تاریخ اور مستقبل ہیں۔ لاہور کی نہر اور گلبرگ کے درمیان سے گزرتی روڈجو بڑے چوہدری صاحب کے والد کے نام سے منسوب ہے پر بڑی کوٹھیوں کے سامنے کھڑی گاڑیاں ’’چوہدریوں‘‘ کے ڈیرے آباد ہونے کا پیغام دیتی ہیں۔یہ گھر آج بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے جوکبھی ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی شہید کا سیاسی ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا۔اگر کہا جائے چوہدری شجاعت کا نام زیرک سیاستدانوں کی فہرست میں ٹاپ پر آتا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔یہ جملہ پھینکنے کے ماہر بھی ہیں،ان کے ڈائیلاگ آج بھی ضرب المثل کی طرح’’ وائرل‘‘ ہوتے ہیں۔گجرات کے چوہدری گھرانے کے وڈے چوہدری صاحب کی مہمان نوازی کی داستانیں ’’روٹی شوٹی کھاکے جانا‘‘ کی صورت میں دور تک پھلی ہوئی ہیں۔سیاست کے کارزار میں حالات جتنے بھی بے سمت ہوں ،چوہدری شجاعت حسین آگے بڑھتے ہیں اور پنجابی زبان کا ایک ڈائیلاگ’’مٹی پاؤ‘‘ ہماری سیاست کو دے جاتے ہیں ۔جو آگے چل کر زبان زد عام ہوجاتا ہے۔
اٹھائیس جون کو2004ء کو بطور وزیراعظم حلف اٹھانے والے چودھری شجاعت حسین نے وزارت عظمی کے عہدے پر رہنے کے دوران ’کے ٹو، سر کیے جانے کی گولڈن جوبلی تقریبات کا افتتاح کرنے کے علاوہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی میتیں مفت لانے کے لیے ’پی آئی اے، کو حکم دینے کے ساتھ، ٹیلی کمیونیکیشن کے روزانہ اجرت کے ملازمین کو مستقل کرنے،جھوٹ بولنے کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے اور بھارتی وزیراعظم کی جائے چکوال میں جائے پیدائش گاہ کو ماڈل ولیج کا درجہ دینے اور وہاں کے پرائمری سکول کا نام منموہن سنگھ سے منسوب کرنے کے احکامات بھی انہوں اپنے قلیل المدت دور حکمرانی میں جاری کیے۔
سینئر صحافی رؤف کلاسرا اپنی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں چوہدری شجاعت کا خاکہ لکھا ہے اس خاکے سے چوہدری صاحب کی شخصیت سمجھنے میں آسانی رہتی ہے’’ 70کی دہائی میں بھٹو صاحب نے نجکاری کے نام پر جب چوہدری ظہور الہٰی اور انکے خاندان کی فیکٹریاں قبضے میں لے لیں تو بھٹو اور چوہدری خاندان میں دشمنی کی بنیاد پڑ ی، اسی دشمنی کی باز گشت اکتوبر2007میں تب سنی گئی جب بینظیر بھٹو نے پرویز الٰہی پر الزام لگایا کہ 16اکتوبر کی رات کراچی میں ہونے والے اس بم دھماکے میں وہ بھی ملوث، جس میں ڈیڑھ سو افراد مارے گئے، گو کہ چوہدری شجاعت نے دشمنی کی اس خلیج کو کم کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش تب کی جب بحیثیت وزیرِ داخلہ اُنہوں نے قیدی آصف زرداری کو نہ صرف جیل سے ریسٹ ہاؤس منتقل کیابلکہ بی بی کو ملاقات کرنے کی اجازت بھی دیدی، چوہدر ی شجاعت کے اسی اقدام پر صد ر غلام اسحٰق خان نے انہیں کڑوی کسیلی باتیں سناتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ’’یہ قید ہے یامیاں بیوی کی ملاقاتیں،، مگر چوہدری شجاعت حسین کی بھٹو خاندان سے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش تب دم توڑ گئی جب بی بی نے اقتدار میں آکر چوہدری صاحب کو اڈیالہ جیل کے اس سیل میں پہنچا دیا کہ جہاں بنیادی سہولتیں تک نہ تھیں، چوہدری شجاعت نے اپنے ذاتی خرچے سے اس سیل کی حالت بہتر کروائی اور بعد میں جیل کے نسبتاً اسی بہتر سیل میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی رہنا پڑا۔
حال ہی میں چوہدری شجاعت حسیننے اپنی آپ بیتی لکھی ہے جو ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے ان دنوں ہر طرف اسی کتاب کے چرچے ہیں۔
اپنی کتاب میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک سے متعلق لکھتے ہیں کہ میرے والد چوہدری ظہور الہی نے رحمن ملک کو اپنی وزارت میں نوکری دی تھی۔ لیکن جب رحمان ملک ایف ائی اے کے ڈائریکٹر لگے تھے تو انہوں نے ایف آئی اے ڈائریکٹر لگتے ہی سب سے پہلے میرے اور پرویز الہی پر مقدمہ بنایا اور ہم دونوں کو جیل میں ڈال دیا۔
1997ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پہلی میٹنگ میں چوہدری شجاعت نے نواز شریف سے کہا کہ تکبر، منافقت اور خوشامد سے بچنا مگر افسوس وہ ان تینوں سے نہ بچ پائے۔
اپنی کتاب میں اکبر بگٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں مشرف دور کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جینس میجر جنرل ندیم اعجاز کا لب ولہجہ اکبر بگٹی کے بارے میں بڑا سخت ہوتا تھا۔ایک وہ اور مشاہد حسین دونوں ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ اکبر بگٹی ہمیشہ وفاق کے حامی رہے ہیں لہٰذا انہیں مارنا نہیں گرفتار کر لینا۔مگراگلے ہی روز اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے لال مسجد کا مسئلہ حل کر چکے تھے۔مگر مشرف نے صلح نامہ مسترد کردیا۔اسی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی اور بعد ازاں بحالی پر انہوں نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا کہ افتخار چوہدری کو ’’جپھا‘‘ ڈالیں انہیں کہیں یہ قانونی جنگ تھی اور وہ آپ جیت گئے ہیں اس طرح سے یہ بحران ختم ہوجائے گا مگر مشرف نے ایسا نہیں کیا۔
چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں مشرف نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ابھی پولنگ جاری تھی کہ شام چار بجے مشرف نے فون پر چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ کو پینتیس چالیس نشستیں ملیں گی آپ نتائج تسلیم کر لیں کوئی اعتراض نہ کیجئے گا۔اس کتاب میں عدلیہ بحالی تحریک،ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قوم سے معافی،اکبر بگٹی کی شہادت،لال مسجد واقعہ، شوکت عزیز کا وزیراعظم بننا سمیت بہت سے ملکی تاریخ کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی گئیہے جس کے عینی شاہد چوہدری صاحب خود ہیں۔اس کتاب کو انہوں نے اپنے فرسٹ کزن،دیرینہ ساتھی سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے نام کیاہے یہ وہی پرویز الہی ہیں جن کا بیان شاید آج کسی کو یاد نہ ہوپھر بھی یاد کروانے میں حرج نہیں انہوں نے دور اقتدار میں اپنے قائد کے لیے کہا تھا’’ہم جنرل پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی میں منتخب کروائیں گے‘‘۔شاید’’شجاعت کی یہ داستان‘‘ لکھتے ہوئے چوہدری صاحب قوم کو یہ سچ بتانا بھول گئے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے گجرات کے ’’تگڑے‘‘ چوہدری اتنی آسانی سے کیسے ایک آمر کے دربار پر سجدہ ریز ہو گئے تھے۔۔؟