برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ کے دو عظیم نام قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ذولفقار علی بھٹو جن میں سے ایک کو قائدِ اعظم کے نام سے پکارا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو قائدِ عوام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔دونوں کی جدو جہد مثالی تھی اور دونوں کی جراتوں کی للکار سے تاریخ کے ابواب روشن ہیں۔دونوں کی سیاسی بصیرت ، فہم و فراست اور قائدانہ صلاحیتوں کے دوست اور دشمن سبھی معترف ہیں۔مخالف کی گواہی اس لئے زیادہ اہم بن جاتی ہے کیونکہ وہ ہم عصر ہونے کی جہت سے خود بھی عوامی پذیرائی اور عظمت کا طالب ہو تا ہے۔پنڈت جواہر لال نہرو،مہاتما گاندھی،وجے لکشمی پنڈت اوربے شمار دوسرے سیاسی مخالفین نے قائدِ اعظم کے اعلی کردارا ور عزمِ مصم کو جن شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے تاریخ کے اوراق اس کی گواہی دینے کیلئے کافی ہیں۔کون ہو گا جو قائدِ اعظم کی امانت و دیانت پر انگلی اٹھا ئے گا؟کون ہو گا جو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منکر ہو گا؟کون ہو گا جو ان کے خلوص اور سچائی کا ابطال کرے گا؟ ان کے مخا لفین کی مخالفت ان کے دو قومی نظریے کی حد تک تھی اور نظریے سے اختلاف کرنا ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔جھنیں دو قومی نظریہ پسند نہیں تھا وہ قائدِ اعظم کے سیاسی مخالف تھے جبکہ وہ ان کے اعلی کردار کے معترف ہونے کی جہت سے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کوقائدِ اعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گونر جنرل بنے تو اکتوبر ١٩٤٧ میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج دیں جس کے جواب میں قائدِ اعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر میں بھارتی مداخلت کے خلاف کشمیری حریت پسندوں کی مدد کرنے کا ھکم دیا جسے جنرل گریسی نے ماننے سے انکار کر دیا۔یہ انکار قائدِ اعظم جیسے جمہوریت پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والے انسان کیلئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں تھا۔انھیں فوج کے انکار کی وجہ سے اپنا حکم واپس لینا پڑا کیونکہ ا س کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
عسکری قیادت کو اپنی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے لہذا سول حکمرانوں کے پاس انھیں آئین و قانون کا تا بع رکھنا انتہائی کٹھن کام ہے اور اس میں قائدِ اعظم بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ عسکری قیادت کے پاس ملکی سلامتی کا وہ تیر بہدف نسخہ ہے جس کے سامنے پوری قوم سرنگوں ہو جاتی ہے لہذا طالع آزما ئوں کا جب جی چاہتا ہے وہ آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں ۔عدالتیں بھی انھیں ریلیف دیتی ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ ہم عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں اور ہمیں بہتر کل کے تناطر میں تنقید کرنی بھی چائیے لیکن ایسا کرتے وقت ہم زمینی حقائق سے رو گردانی کر جاتے ہیں۔کامیاب انقلاب جب حقیقت بن کر سامنے کھڑا ہو جائے تو کیا عدالت کا ایک حکم اسے پلٹ سکتا ہے؟طالع آزما فوجی ضابطے کے تحت عدالت کے حکم کو بھی غیر موثرکر سکتے ہیں لہذا عدالتیں اپنی رسوائی کے ڈر سے عوامی منشاء سے اظہارِ یکجہتی کی راہ کا انتخاب نہیں کرتیں ۔ عوام بھی عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑا ہونے سے ہچکچاتے ہیں اس لئے عدالت بھی شب خون کو جائز قرار دے دیتی ہے حالانکہ ایسا کرنے سے شب خون جائز قرار نہیں پا سکتا لیکن کم از کم طالع آزمائوں کو اقتدار جاری رکھنے کا جواز حاصل ہو جاتا ہے۔ عظیم چینی راہنما مائوزے تنگ کا قول ہے کہ انقلاب بندوق کی گولی سے جنم لیتا ہے جو کہ پاکستانی سیاست پرمکمل منطبق ہو تا ہے کیونکہ یہاں پر بندوق کی طاقت ہی اصلی اور حقیقی حکمرانی کا تعین کرتی ہے ۔وزیرِ اعظم جتنا بھی طاقت ور ہو جائے وہ پھر بھی بندوق والوں کا حا شیہ بردار رہتا ہے۔
جہاں پر اس نے اپنی آئینی حیثیت دکھانے کی جرات کی اس کا انجام عبرتناک ہوا۔لیاقت علی خان ،محترمہ فاطمہ جناح ،حسین شہید سہروردی،ذولفقار علی بھٹو،محترمہ بے نظیر بھٹو اور کئی دوسرے وزرائے اعظم کی موت، جلاوطنی ،تذلیل اور رسوائی چیخ چیخ کر اپنی بے بسی کی داستان سنا رہی ہے۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ طاقت کی اصل مہار کن کے ہاتھ میں ہے؟کون ہیں جو سارے اہم فیصلے کرتے ہیں ؟ کون ہیں جن کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہو جاتی ہے؟ کون ہیں جن سے عدالت بھی باز پرس نہیں کر سکتی؟کون ہیں جو کسی کو جواب دہ نہیں ہیں؟ میرے دوستو یہ کوئی غیر مرئی،اوجھل اور پوشیدہ مخلوق نہیں ہے بلکہ اسی ملک کے وہ طالع آزما ہیں جن کے ہاتھ میں اکیس کروڑ انسانوں کا مقدر ہے اور جن کے سامنے منتخب وزرائے اعظم کو سر نگوں ہو نا پڑتا ہے تاکہ ان کی گردن نہ ناپی جاسکے۔ لیکن کب تک ؟ یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے جس کیلئے مضبوط فوج کی اشد ضرورت ہے۔ایٹم بم کا حصول بھی سیکورٹی سٹیٹ کو ناقابل ِ تسخیر بنانے کی خاطر کیا گیا تھا ۔ایٹم بم بن گیا اور ہم بھارتی دھمکیوں،یلغار اور جارحیت سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے ۔ایٹم بم کا معرکہ سیاسی قیادت کا وہ تحفہ ہے جس پر پوری قوم ان کی ممنون و مشکور ہے۔
اگر ہمارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل میں نجانے ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلتا؟ ایٹم بم نے بھارتی قیادت کے ہاتھ باندھ دئیے ۔لیکن ستم ظر یفی کی انتہا تو دیکھئے کہ ایٹم بم کے خالق ذولفقا ر علی بھٹو کو طالع آزما جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں پھانسی کی سزا بھگتی پڑی ۔ قائدِ اعظم کے بعد وہ پاکستان کے سب سے مقبول راہنما تھے جن کی سیاسی بصیرت اور دور نگاہی کی دنیا معترف ہے لیکن ان کا مقدر بھی طالع آزما کے ہاتھو ںموت کا ایک ایسا متنازعہ فیصلہ بنا جسے عوام نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا بلکہ اسے عدالتی قتل کہہ کر مسترد کر دیا۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت عوام کے پاس دو راستے تھے۔ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ فوج کے خلاف کھڑی ہو جاتی اور ملک میں افرا تفری اور تصادم کا ماحول پیدا کر دیتی اور دوسرا یہ تھا کہ وہ اپنے محبوب قائد کی پھانسی کے غم کو سنبھال کر رکھتی اور کسی مناسب وقت پر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ۔ ذولفقار علی بھٹو جیسے قائد کی پھانسی پر خاموشی کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن قوم نے اپنی فوج سے اظہارِ یکجہتی اور ملکی سلامتی کی خاطر یہ بھی کر دکھایااور آزمائش کی گھڑیوں میں پر امن اظہار کی راہ کا انتخاب کیا۔اپنی فوج سے محبت کی یہ ایک ایسی نادر اور لازوال مثال ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔قوم نے بہتے آنسووں میں بھٹو کا جسدِ خاکی تو وصول کیا لیکن اس سے اپنی محبت کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ۔ قوم نے اس دن کابے چینی سے انتظار کیا جب وہ اپنے محبوب قائد کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتی اور دنیا پر ثابت کرتی کہ اس کا محبوب قائد اب بھی زندہ ہے لہذا ١٩٨٨ کے انتخابات میں قوم نے جی بھر کر پی پی پی کو ووٹ دئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں اور یوں ذولفقار علی بھٹو کی محبت حقیقت بن کر سارے عالم میں پھیل گئی ۔ذولفقار علی بھٹو آج جمہوری قدروں کا ایسا استعارہ ہے جسے اس کے قاتل بھی جھٹلا نہیں سکتے۔
پی پی پی کو شکست دینے کیلئے عسکری قیادت نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا،قومی خزانے سے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے،مذہبی اور لسانی جماعتوں کو ایک پرچم تلے اکٹھا کیا لیکن سارے مل کر بھی ذولفقار علی بھٹو کی محبت کا مقابلہ نہ کر سکے۔یہ سچ ہے کہ فوج سے عقیدت ہمارے لہو میں شامل ہے کیونکہ وہ ملکی سلامتی کی علامت ہے،وہ پاک دھرتی کے تحفظ کی علامت ہے،وہ ہمارے وجود کے تشخص کی علامت ہے جبکہ اپنی محبوب قیادت سے ہماری اٹوٹ محبت ہمارے قلب و نظر میں سمائی ہوئی ہے جو ہماری تشنہ آرزوئو ں کی تکمیل کرتی اور ہمارے دیرینہ سپنوں کو قوتِ گویائی عطا کرتی ہے۔ ہم بیک وقت دونوں محبتوں کے امین ہیں جبکہ طالع آزمائوں سے ہمیں شدید نفرت ہے ۔جب ملکی استحکام کا معاملہ در پیش ہو تا ہے ہم فوج کی عظمت کے گیت گاتے ہیں لیکن جب جمہوری حق کے استعمال کا لمحہ آتا ہے ہم اپنی سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اس وقت کوئی جر نیل کوئی ایجنسی،کوئی ،بندوق، کوئی دھمکی اور کوئی وارننگ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کا ساتھ دینے سے باز نہیں رکھ سکتی کیونکہ ہمارا خمیر جمہوری جدو جہد سے اٹھا یا گیا ہے ۔محبت کا جنون جب موت کے خوف کو اپنا تابع کر لیتا ہے تو پھر انسان سچ کا ساتھ دیتاہے ۔ باعثِ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود طالع آزما سیاسی قیادتوں کا قتل کرنے سے نہیں باز نہیں آتے ۔وقت آ گیا ہے کہ عسکری قیادت عوامی محبت کا جواب ان کی منتخب قیادت سے محبت کر کے دے؟قومی قیادت سے محبت در اصل ملکی بقا سے محبت ہے اور یہی وقت کی پکار ہے۔ زیر کرنے کی عادت اب ترک ہو جانی چائیے ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال