عدلیہ اور حکومت

 Judiciary

Judiciary

تحریر: روہیل اکبر
کیاہ ماری حکومتیں ناکام ہوگئی ہے یا عام عادمی کا سیاستدانوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے آج پاکستان کے کسی بھی بڑے سے بڑے یا چھوٹے سے قصبے میں کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو سب کی نظریں چیف جسٹس اور عدلیہ پر لگ جاتی ہیں کیا ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے لوٹ مار اور بادشاہ بننے کے لیے آتے ہیں کراچی میں معصوم بچی کو درندوں نے مار دیا تو اسکا والد بھی چیف جسٹس سے انصاف مانگ رہا تھااور وہاں کی پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھیوں سے ان مظلومین کی تواضع کردی گئی کیا ہماری حکومتیں انصاف دینے میں ناکام ہوچکی ہیں کیا پولیس سیاستدانوں کی ٹاؤٹ اور شہریوں کی دشمن بن کر جو ئے کے اڈوں اور منشیات فروشوں کی سرپرست بن کر نوٹ کمانے میں مصروف ہے 17اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت ریمارکس دئیے ہیں کہ پولیس تفتیشی افسران کے کمروں میں دن کو منشیات اور رات کو لڑکیاں ملتی ہیں،ایک جج کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مدہوش ہو کر غل غپاڑہ کرتا ہے، اس کے پڑوسی بھی اس سے تنگ ہیں قانون اجازت دے تو عصمت دری کرنے والے ڈی ایس پی کو ڈی چوک پر شوٹ کیا جائے اسلام آباد پولیس کے 90 فیصد افسران جرائم میں ملوث ہیں، دارالحکومت میں جگہ جگہ شراب فروشی کے اڈے اور قحبہ خانے کھلے ہیں۔

کہسار مارکیٹ میں شیشے اور منشیات کے اڈے چل رہے ہیں، بیووکریٹ اور بااثرافراد سر عام شراب پیتے ہیں جبکہ پولیس محض دکھاوے کے لیے کپیاں بیچنے والوں کو پکڑتی ہے، پولیس بااثر افراد پر بھی ہاتھ ڈالے، تفتیشی افسران کے کمروں میں دن کو منشیات اور رات کو لڑکیاں ملتی ہیں، انسپکٹر بوسکی کا سوٹ پہن کر گلے میں چین ڈالے تو تماش بین بن جاتا ہے، پولیس افسران لیڈیز پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں چھوڑتے، خواتین پولیس اہلکار چیخ رہی ہیں افسران اینکرز کوشراب کی بوتلیں دیتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کونسا اینکر پولیس سے رشوت لیتا ہے، کون کون سے ججز، سرکاری آفیسر اور مولوی شراب اور منشیات لیتے ہیں، پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے ۔جسٹس صاحب نے یہ اس مقام کی نشاندہی کی ہے جہاں اقتدار کے درو دیوار ہیں جہاں سیکیورٹی اتنی سخت ہے کہ بغیر اجازت کے چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی ورنہ جان سے جائیگی یہ وہ شہر اقتدار ہے جہاں سے پورے ملک کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ملک کے کونے کونے سے ہمارے عوامی نمائندے اس شہر میں آکر عوام کے لیے بڑی بڑی سکمیں بناتے ہیں اور پھر وہ کسی نہ کسی سکیم میں خود کو فٹ کرلیتے ہیں میں بات کر رہا تھا۔

اگر شہر اقتدار کا یہ حال ہے کہ جناب صدیقی صاحب کو اتنا کچھ کہنا پڑا تو پھر راجن پور اور اس جیسے پسماندہ شہروں کے باسیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جہاں دن رات عزتیں پامال ہورہی ہیں وڈیرا شاہی نظام اپنی پوری آب تاب سے چمک دمک رہا ہے جہاں پر ایک پولیس کانسٹیبل علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے اور اس بادشاہ کی مرضی ہے کہ کسے جینے دے اور کسی موت کی سزا سنا دے وہ بھی بھیانک تاکہ اسکے رشتہ دار ،اردگرد اور اہل علاقہ کو کان ہوجائیں کہ آئندہ کسی نے سر اٹھانے کی جرات کی تو اسکا انجام بھی یہی ہو گا۔

اگر اسلام آباد میں پولیس ملازمین کے کمروں سے لڑکیاں اور شراب نکل سکتی ہیں تو پھر جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں کے پولیس اسٹیشنوں سے تو پورا پورا خاندان ہی نکلے گا وہاں کے سیاسی وڈیرے اور پولیس افسران مل جلکر ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں اپنا الیکشن جیتنے کے لیے بے گناہوں کو پھنساتے ہیں کلو دو کلو چرس ڈالنا پولیس والوں کے بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی کا کام ہے ہے چلتے چلتے کسی بھی شخص پر پستول ڈالنا تو کوئی کاموں میں سے کام ہی نہیں ہے زنا اور شراب تو روٹین کے پرچے ہیں پولیس مقابلوں میں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح مارنا تو ان وحشیوں کا کھیل ہے تھانے عقوبت خانے اور جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں ہیں پولیس ضلع کی ہو یا جیل کی دونوں کی عادتیں اور حرکتیں ایک جیسی ہیں دونوں نے اپنی انسانیت کو دفن کرکے حیوانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور ان سب کی سرپرستی ہمارے حکمران کر رہے ہیں۔

اللہ بھلا کرکے ہمارے ججوں کا جو نہ ختم ہونے والی برائی سے جہاد کررہے ہیں آج پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے افراد عدالتوں کے رحم وکرم پر ہیں میں نے اپنے ایک پہلے کالم میں پولیس کی ناانصافیوں کا نشانہ بننے والے لاہور کے رہائشی جاوید عمر کے بارے میں لکھا تھا کہ کیسے میانوالی پولیس نے اس شخص پر دو کلو چرس کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج رکھا ہے حکمرانوں نے تو انصاف کی توقع نہیں اگر چیف جسٹس صاحب اس حوالہ سے کچھ کرسکیں تو ایک غریب خاندان پر انکا احسان ہوگا یہاں پر میں اپنے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز صاحبان کا بھی شکر گذار ہوں کہ جو باقاعدگی سے جیلوں کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں پربے گناہ قید افراد کو رہائی دلاتے ہیں یہ کام ہمارے حکمرانوں کے کرنے کے ہیں کہ وہ بے گنا اور معصوم افراد کی دادرسی کریں نہ کہ عوام کو مزید مشکلات میں دھکیل کر انکے لیے مسائل پیدا کریں اگر پولیس کو یونہی کھلا چھوڑ دیا گیا تو پھر آنے والے دنوں میں کسی کی عزت محفوظ رہے گی نہ ہی جیب کیونکہ ہر طرف وردی والے لٹیروں کا راج ہو گا۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03004821200