تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم ”آئے موسم رنگیلے سہانے ”جی ہاں یہ ایک فلمی گیت ہے جو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ان سیاسی پرندوں کے معیار زندگی پہ پورا اترتا ہے جو عام انتخابات کے موسم میں ہوائوں کا رخ جانچنے اور پرکھنے کی خوب مہارت رکھتے ہیں ان سیاسی پرندوں کی اڑان بھرنے کا موسم آرہا ہے یہی وجہ ہے یہ سیاسی پرندے ہوائوں کا رخ دیکھ کر اپنے پرانے آشیانے چھوڑ کر نئے سیاسی گھونسلوں میںجانا شروع ہو چکے ہیں کئی سیاسی پرندے اڑان بھرنے کے لئے پر تول رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کس سیاسی جماعت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہوگی اورکونسی پارٹی کے سر پہ اقتدار کا ہما سجایا جائے گا جن ان سیاسی پرندوں کو پختہ یقین ہو جائے گا کہ فلاں پارٹی سیاسی راہداریوں سے گزرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والی ہوگی یہ سیاسی پرندے جھٹ سے پھدک کر اسی پارٹی کے حضور سجدہ ریز ہونے میں اپنی عافیت جانیں گے یہ جو سیاسی پرندے عام انتخابات کے موسم میں اپنے آشیانے جن میں یہ پچھلے پانچ سال اقتدار کے نشہ میں بد مست رہتے ہوئے ہر طرح کے فوائد حاصل کرتے رہے ہیں پرانے آشیانہ سے یکسر اکتا جاتے ہیں اور ان گھونسلوں کے متلاشی ہوتے ہیں جن گھونسلوں میں اگلے پانچ برس بھی دنیاوی اورسیاسی تغیرات میں محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ ملکی خزانوں کو دونوں ہاتھوں سے مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹ لوٹ کر اپنے آشیانوں کی آبیاری کریں ان سیاسی پرندوں کے نظریات نہیں بلکہ مفادات ہوتے ہیں انہیں نظریات سے کیا لینا دینا انہیں مفادات عزیز ہوتے ہیں اور یہی مفادات ان کا اوڑنا بچھونا ہوتا ہے۔
سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس میں شدت اور تیزی 2002ء کے عام انتخابات کے موقع پہ نظر آئی اقتدار سے سبکدوش ہونے والی مسلم لیگ ن کے بے شمار رہنما ئوں کوراتوں رات اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے ”سرکاریہ،ہم خیالیہ و اظہریہ”کے سیاسی گھونسلے میںپناہ لینا پڑی بعد ازاں اسے پاکستان مسلم لیگ کا نام دیا گیا وقت کے ساتھ ساتھ اسے مسلم لیگ کو ”ق” کے نام سے پہچان ملی اورمسلم لیگ ق کو اقتدارکے ایوانوں تک لے جایا گیا 2008ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے مفادات اٹھانے والے کئی سیاسی پرندے دوبارہ اپنے پرانے گھونسلوں میں لوٹے لیکن کئی سیاسی پرندے جو چلتی ہوائوں کے مزے لوٹنے کے عادی ہوتے ہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کے گھونسلوں میں اپنے آپ کو محفوظ پایا اور پانچ برس خوب لہلہائے پانچ برس پلک جھپکتے گزرگئے ہوائیں تبدیل ہوئی۔
نظریات مفادات میں تبدیل ہوئے ق اور پی پی کے گھونسلوں میں پانچ پانچ برس انجوائے کرنے والے سیاسی پرندے اپنے گھونسلوں سے بیزاری محسوس کرتے ہوئے ”شریفوں کے گھونسلوں ”میں ساون بھادوں کی رم جھم کی طرح خوب برسے ”شریف” زیر عتاب آئے تو ان سیاسی پرندوں نے پھر سے نئی اڑان کی امنگ اور ترنگ کے ساتھ انگڑائی لی سیاسی پرندے سیاسی موسم کی تبدیلی اور ہوائوں کے رخ دیکھ کر ایک ایک کر کے گھونسلا تبدیل کرتے نظر آئے پانچ سال اقتدار کے ایوانوں میں مزے لوٹنے والے یہ سیاسی پرندے اب نئے آشیانہ کی تلاش میں ہیں۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی پرندے حکمران جماعت سے اڑان بھر چکے ہیں کئی سیاسی پرندے نئے گھونسلوں کے مالکان سے محفوظ پناہ کی ضمانت ملنے پہ اگلے پانچ برسوں کے لئے اپنے ”ضمیر” کو محض اس لئے گروی رکھ چکے ہیں کہ انہیں آنے والے سالوں میں اپنے اقتدار کی ہوس پوری کر نی ہے حکمران جماعت سے اڑنے والے کئی پرندے محفوظ پناہ گاہوں کے متلاشی ہیں ابھی بہت سے سیاسی پرندے ایسے بھی ہیں جو پانچ سالہ اقتدار کے آخری دن کے آخری گھنٹہ کے آخری منٹ تک مزے لوٹنے پہ تلے ہوئے ہیں جیسے ہی اقتدار کا سورج غروب ہوگا یہ چہچہاتے اور لہلہاتے ہوئے نئے گھونسلوں میں جا بسیں گے۔
افسوس اور لمحہ فکریہ کا مقام تو یہ ہے کہ سالہا سال سے یہ سیاسی پرندے اپنے اپنے مفادات کی خاطر گھونسلے تبدیل کرتے رہے ہیں گھونسلوں کے مالکان بخوبی جانتے ہوئے بھی ان سیاسی پرندوںکو کھلے دل اور خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہتے ہیں اگرگھونسلوں کے مالکان اس بات کا عہد کر لیں کہ پرانے سیاسی پرندے جو ہر سہانے اور رنگیلے موسم میں اڑان بھرنے کے عادی ہیں انہیں اپنے گھونسلوں میں محفوظ پناہ دینے کی بجائے انہیں دھتکار دیں تو یقین جانیں یہ سیاسی پرندے گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے ،ان سیاسی پرندوں کی سیاسی وفاداریوں نے ملک عزیز کے نظام کو اپنے کڑے اور مضبوط حصار میں جکڑا ہوا ہے جب تک وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا راستہ روکا نہیں جائے گا تب تک اس ملک کے عوام ان سیاسی پرندوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہیں گے۔