تحریر : چودھری عبدالقیوم سپریم کورٹ نے عطائی ڈاکٹروں کی پریکٹس پر پابندی لگا دی ہے۔ جس پر محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں نے عملدرآمد کرتے ہوئے عطائی ڈاکٹروں کیخلاف ایکشن شروع کردیا ہے۔ عدلیہ کا یہ اقدام بہت اچھا ہے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار کی قیادت میں عدلیہ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے لیے انقلابی اقدامات کررہی ہے ۔جس کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔جو کام حکمرانوں کو کرنے ہوتے ہیں وہ بھی عدلیہ کو کرنے پڑرہے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ سیاستدان، منتخب عوامی نمائندے اور حکمران اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے میں ناکام نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ملک کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہر کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا سیاستدانوں اور منتحب نمائندوں کی غفلت کیوجہ سے اب کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اسی طرح عوام کو تعلیم،صحت کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی بہت زیادہ شکایات ہیں۔صحت کے شعبے میں بھی عوام کو بہت زیادہ مسائل اور مشکلات درپیش ہیں۔لوگوں کو عطائیت کے بارے میں بھی تحفظات تھے اس پر بھی عدلیہ نے بڑی کاروائی کی ہے۔لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ کوالیفائڈ ڈاکٹرز سے علاج کرانا عام غریب آدمی کے بس میں نہیں ایک تو ان ڈاکٹروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں اور یہ عام ادویات تجویز کرنے کی بجائے وہی مخصوص مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں جن پر ادویات ساز ادارے انھیں بھاری کمیشن اور مراعات دیتے ہیں جو مارکیٹ میںعام میڈیکل سٹورز پر دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔جبکہ زیادہ تر کولیفائڈ ڈاکٹرز شہروں میں اپنے کلینکس اور ہسپتال بناتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی دور دراز چھوٹے بڑے دیہاتوں میں رہتی ہیں جہاں پرکولیفائڈ ڈاکٹرز نہیں ہوتے دیہاتوں میں عام طور پر ڈپلومہ ہولڈرز اور عطائی ڈاکٹرز ہی دستیاب ہوتے ہیں جو ہسپتالوں اور بڑے ڈاکٹرز کیساتھ اسسٹنٹ یا ڈسپنسر رہنے کی صورت میں تجربہ حاصل کرتے ہیں۔
شہروں سے دور دیہاتوں میں جہاںکولیفائڈ ڈاکٹرز نہیں ہوتے وہاں کلینک قائم کرلیتے ہیں۔اس طرح دیہاتوں میں رہنے والے غریب لوگ مہنگے جو ڈاکٹرز یا ہسپتالوں تک رسائی نہیں رکھتے وہ پیٹ درد،بخار نزلہ زکام جیسی معمولی بیماری کی صورت میں ان عطائی ڈاکٹرز سے علاج کراتے ہیں اس طرح ہمارے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے یہ عطائی ڈاکٹرز ایک ضرورت بن چکے تھے ایک اندازے کیمطابق ملک میں عطائی ڈاکٹرز کی تعداد سات لاکھ تک ہے ۔دور دراز علاقے جہاں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کے کلینکس نہیں ہوتے وہاں کے لوگوں کو کولیفائڈ ڈاکٹرز سے علاج کرانے کے لیے شہروں میں جانا پڑتا ہے جہاں آنے جانے میں وقت ضائع ہونے کیساتھ اخراجات آتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی فیس اور مہنگی ادویات غریب آدمی کے ناقابل برداشت ہوتی ہیں ۔ان حالات میں لوگوں کا علاج کے لیے عطائی ڈاکٹرز کے پاس جانا مجبوری ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس جانا آسان ہونے کیساتھ علاج بھی سستا ہوتاہے۔اگر ایم بی ایس ایس کوالیفائڈ ڈاکٹرز دستیاب ہو اور ان سے علاج سستا ہو تو پھر کوئی بھی مریض عطائی ڈاکٹرز کے پاس نہ جائے۔
اگر لوگ عطائی ڈاکٹرز کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو اس کے لیے کوالیفائڈ ڈاکٹروں کا بھی قصور ہے کہ وہ شہروں سے دور دیہاتوں میں کلینک نہیں بناتے اور علاج کے لیے بھاری فیسیں اور مہنگی ادویات دیتے ہیں۔کوالیفائڈ ڈاکٹرز اگر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت دیہاتوں میں کلینک ،ہسپتال بنائیں اوراپنی فیسیں کم رکھیں ، سستی ادویات دیں تو ان کے پاس عام لوگ بھی علاج کے لیے آئیں گے۔ لیکن افسوس کہ کولیفائڈ ڈاکٹرز کی اکثریت اس جذبے سے عاری نظر آتی ہے ۔حالانکہ ڈاکٹرز بننے والوں سے دوران تعلیم اچھی پوزیشن حاصل کرنے پر پوچھا جائے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو وہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا۔لیکن افسوس کہ ڈاکٹر بننے کے بعد یہی ڈاکٹرز دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے دولت سمیٹنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اور اکثرڈاکٹروں کی ہوس زر کیوجہ سے لوگ انھیںڈاکو اور قصائی جیسے لقب دیتے ہیں ۔قصائی جانوروں کو ذبح کرکے کھال اتارتے ہیںتو ڈاکٹر مریضوں کی الٹی کھال اتارتے ہیں ایسے ڈاکٹروں نے اپنے کلینکس اور ہسپتالوں کو کاروباری ادارے بناکر رکھ دیا ہے۔
جہاں امیر اور سرمایہ دار ہی علاج کراسکتے ہیں غریب لوگ یہاں علاج کرانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔جب کوالیفائڈ ڈاکٹرز کا یہ حال ہو تو غریب لوگ بیماری کی صورت میں عطائی ڈاکٹرز کے پاس نہ جائیں تو پھر کیا کریں۔لیکن اب عدلیہ نے ایک اچھے جذبے،اچھی سوچ اور اچھی نیت سے عطائی ڈاکٹرزپر پابندی توعائد کردی ہے اور ان کے خلاف کاروائی اور ایکشن کے لیے پولیس کو اختیارات دے دئیے ہیں ۔لیکن اس کے دوسرے پہلو کو نہیں دیکھا گیا۔اس فیصلے سے ایک طرف تو یہ لاکھوں عطائی ڈاکٹرز پریشان ہیں تو دوسری طرف کروڑوں غریب لوگ بھی پریشان ہیں کہ وہ سستے علاج کے لیے کہاں جائیں گے۔
کیوںکہ کولیفائڈ ڈاکٹرز کی فیسیں اور مہنگی ادویات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں اگر کوئی غریب آدمی کوالیفائڈ ڈاکٹر کے کلینک یا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کرانے کی کوشش کرے تو وہ پرائیویٹ ہسپتال یا کوالیفائڈ ڈاکٹرز کے مہنگے علاج اور مہنگی ادویات خریدنے کے لیے اپنا زیور یا مکان بیچنے پر مجبور ہوجائے گا۔ کیونکہ سرکاری ہسپتالوں اور یونین کونسلز میں قائم بنیادی مراکز صحت کی حالت زار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔ یہاںعلاج کرانے والوں کا اتنا زیادہ رش رہتا ہے کہ ہسپتال یا مراکز صحت کے مقررہ اوقات میں سب کی باری آنا ہی بہت مشکل ہوتا ہے۔یہاں ڈاکٹر نہیں ملتا عملہ بہت کم ہوتا ہے اگر خوش قسمتی سے ڈاکٹر ہو تو ادویات دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔عدلیہ کا فیصلہ درست اور بجا ہے جس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیے لیکن معزز عدلیہ کو عوام کی مشکلات کے ازالے اور غریب لوگوں کے سستے علاج معالجے کی سہولت بہم پہنچانے کے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔