ن لیگ حکومت کا آخری بجٹ

Budget

Budget

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

آخر کار الیکشن سے قبل ن لیگ حکومت نے شخیاںمارتے اور لنترانیاں ہانکتے آمدن سے زیادہ خسارے کا اپناآخری بجٹ2018-19ءپیش کر ہی دیاہے ،اَب اِس کے ثمرات عوام الناس تک پہنچتے بھی ہیں کہ نہیں آج کسی کو اِس سے کوئی سروکار نہیںہے بس بجٹ پیش کرنا اور سینے پر تمغہ سجانا حکومت کا کام تھا سو اِس نے بجٹ پیش کرکے اپنا اُلو سیدھا کرلیا ہے یہ سب اگلے متوقعہ الیکشن میں اپنی جیت کے لئے کیا گیاہے ور نہ بجٹ پیش کرنے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ کہ آج ن لیگ کی حکومت اپنی مدت ختم ہونے سے صرف چند روز پہلے اپنا آخری خساروں والابجٹ پیش کرتی اور گاتی پھرتی کہ یہ اِس کا عوام دوست بجٹ ہے۔!!

اگرچہ آج اِس پر اپوزیشن جماعتوں اقتصادی ماہرین اور سیاسی تبصرہ اور تجزیہ کار ایک خاص انداز سے چہ میگوئیاں کررہے ہیں اور حکومت کو تنقیدوں کا نشا نہ بنارہے ہیں مگراِس کا کیا کیا جائے؟ جب کسی کے سر پر خود کوسب سے اچھا ہونے کا غرور تکبرسوار ہوگیاہو..!! تو پھر یہی ہوتاہے آج جو مُلک میں نااہل قرار پاکربھی ن لیگ والے کررہے ہیںیعنی کہ سِوائے نااہل ہونے کے کیا دھرا کچھ نہیں مگربجٹ بھی پیش کیاتو خساروں والا…!! اَب اِس پر یہ دعویٰ بھی کہ ہم پھر بھی سب سے اچھے ہیں۔اِس لحاظ سے تاریخ گواہ ہے کہ ارضِ مقدس پاکستان میں حکمرانواور سیاستدانوں کا پیٹ نہ کبھی بھرا تھا اور نہ کبھی بھرے گا خواہ یہ کسی بھی طرح لاکھ کرپشن کرلیں اِن کے پیٹ خالی ہی رہیںگے اور عوام کی آنکھیں ایسے کرپٹ حکمرانوںاور سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے خوشحالی کی راہیں تکتے تکتے اندھی یاقبر کی آغوش میں پہنچ کر منوں مٹی تلے بندھ ہوجا ئیں گیں مگرکرپٹ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور چارسو بیس افسرشاہی کی موجودگی میں عوام مسائل کے دلدل میں دھنستے ہی جا ئیں گے آج جہاں یہ اپنے بنیادی حقوق پینے کے صاف پانی اور دیگرضروریات زندگی کوترس رہے ہیں تو وہیں یہ تعلیم اور صحتِ عامہ کی سہولیات سے بھی محروم ہی رہیںگے۔

اَب جس مُلک میں زمینداروں سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی حکمرانی ہو بھلا اِس مُلک میں تعلیم اور صحتِ عامہ کا مسئلہ تو مسئلہ ہی رہے گا ،پچھلے ستر سالوں سے ارضِ پاک میں جتنے بھی بجٹ پیش کئے گئے ہیں اُن میں دیدہ دانستہ تعلیم اور صحت کی مد میں کم رقم مختص کی گئی ہیں حکمرانوں اور حکومتوں کا اِن شعبوں کے لئے بجٹ میںقلیل رقوم مختص کرنا جہاں ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ تو وہیں ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہمارے سالانہ مُلکی میزانیے میںاِن شعبوں کو اول بجٹ سے ہی نظرانداز کرنے کی سعی کی گئی ہے؟اگرچہ کسی نے بحالتِ مجبوری یاتبرکتاَ یا بجٹ کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے اِن شعبوں کو بجٹ میںشامل کیااَب ایسا لگتا ہے کہ حکومتیںہر بجٹ میں تعلیم اور صحتِ عامہ کے شعبے کو بجٹ کا ذائقہ خوشگوار بنانے کے لئے رکھتی ہیں آج یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ جیسے کسی نے کبھی نہیںچاہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے کو بجٹ میں اہم شعبوں کے طور پر شامل کیاجائے ۔یوں آج تک ہمارے یہاں جتنی بھی سِول یا آمرحکومتیں آئیں سبھوں نے اپنے بجٹ میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو محض مصلحتاََ شامل کیااور اِن شعبوں میں ہمیشہ قلیل رقوم مختص کیں آج بڑے افسوس کی بات ہے کہ رواں ن لیگ کی حکومت نے بھی اپنے آخری بجٹ میں تعلیم اور صحتِ عامہ کی مد میں کم ترین رقم مختص کرکے ماضی کی روایت قا ئم رکھی ہے۔

آج اِس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ ستر سالوں سے ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چپاٹوں یعنی کہ وفاقی اور صوبائی اداروں میںگدھوں کی طرح بیٹھے بیوروکریٹس کے نزدیک تعلیم اور صحت کا شعبہ کبھی بھی اہمیت کاحامل نہیں رہاہے آج ن لیگ کی حکومت نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی خاص سوچ پر چل کر اِن شعبوں کے لئے اپنے آخری بجٹ میںکم رقم مختص کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اِس کی نظر میں بھی قوم کوتعلیم اور صحت ِ عامہ کے مد میں زیادہ سہولیات دینے کی خاص ضرورت نہیں ہے اگر قوم کو تعلیم یافتہ بنا دیااور صحتِ عامہ کے شعبوں میںجدید سہولیات مہیا کردی گئیں تو یہ آئندہ اپنی حکمرانی کس پر کریں گے۔جبکہ پاکستان کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے قومی بجٹ میں سب سے زیادہ رقوم تعلیم اور صحت ِ عامہ کے شعبوں کے لئے مختص کرتے ہیں اور ارضِ مقدس پاکستان میں زمیندار، سرمایہ کاراور صنعت کارکرپٹ اور نااہل حکمران اور سیاستدان تعلیم اور صحت کے شعبوں کو دیگر شعبوں پر ترجیحی دینے کو کبھی بھی تیار نہیں رہے ہیں تب ہی آج تعلیم اور صحت کے شعبوںمیں کم خرچ کرنے والے چار ممالک میں پاکستان سرفہرست شامل ہے ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات سے پہلے تعلیم کے لئے مُلکی جی ڈی پی کا چارفیصدمختص کرنے کے عزم خاص کرنے والی ن لیگ کی حکومت میں بھی مُلکی جی ڈی پی کا صرف 2.68فیصد ہی تعلیم پر صرف کیا جارہاہے آج اِس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اِس ہی بنیاد پر پاکستان کا شمار اِن چارممالک میں سرفہرست ہوتاہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیںجو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ایک ایٹمی طاقت کے حامل مُلک پاکستان میں تعلیم کے لئے مُلکی مجموعی جی ڈی پی کا چار فیصد سے بھی کم ہونایقینایہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے مگر کوئی اِس جانب سنجیدگی سے سوچے ۔تب تو بہتری کی کوئی اُمیدپیداہوسکتی ہے ورنہ سیراب ہے۔

اِسی طرح صحتِ عامہ کا شعبہ بھی ستر سالوں سے ہر بجٹ میں حکمران اور سیاستدانوں کی نظر میں غیر اہمیت کا حامل شعبہ سمجھاگیاہے آج یہی وجہ ہے کہ ایک غیر مُلکی خبررساں ادارے کے مطابق سرکاری اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی تقریبا98فیصد آبادی کو کسی نہ کسی صورت ملیریا کی بیماری کے خطرے کا سامناہے اِس خبر میں مزید واضح اور دوٹوک انداز سے اِس کابھی انکشاف کیا گیاہے کہ”ماہرین کے مطابق 25اپریل کو منائے جانے والے ملیریاکے عالمی دن کی مناسبت سے یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ آج جہاں پاکستانی حکومت مُلکی اور بین الاقوامی اداروں کی مدد سے اِس مرض پرقابوپانے کی بھر پور کرشش کرنے کے ساتھ دعوے بھی آسمان جتنی بلندیوں تک بہت کرتی ہے مگر اِس قسم کے دعووں کے باوجود پاکستان کا شمار آج بھی اِن ممالک میںہوتاہے جنہیںشدید حد تک اِس طبی مسئلے کا سامناہے بس اِس کی ایک وجہ یہی ہے کہ حکومت نے ستر سالو ں سے صحتِ عامہ کے شعبے کو تعلیم کے شعبے کی طرح ہمیشہ دیدہ و دانستہ نظر اندازکیاہے تب ہی ارضِ مقدس میں آج تک ملیریا جیسی ایک عام بیماری کا خطرہ موجود ہے جبکہ دوسرے موذی امراض کی کیا بات کریں؟ پاکستا ن میں حکمران اور سیاستدان ملیر یا جیسی معمولی بیماری کوپلنے پھیلنے سے ستر سالوں میں کنٹرول اور ختم نہیں کر سکے ہیں بھلایہ ارضِ مقدس سے دیگر موذی امراض کو کنٹرول کرنے کے کیا اقدامات کریں گے؟ کل بھی اِن کی نظر میںصحت اور تعلیم سے زیادہ موٹرویز ، جنگلہ ، اورہری ، لال ،نیلی پیلی بسوں اور اورنج ٹرینوں کی اہمیت تھی آج بھی یہ اِسی رنگ ریلیوں میںمگن ہیں اِسی لئے ن لیگ کی حکومت نے اپنے آخری بجٹ میں دنیاوی ظاہری چکاچوند کو اہمیت دی جبکہ تعلیم اور صحتِ عامہ کے شعبوں کے مد میں بجٹ میں قلیل رقم مختص کرکے اِن شعبوں کو جیسے منوں مٹی تلے دفن رکھنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ (ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com