سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیا نااہل ہوئے نااہلی نے تو حکمران جماعت کے گھر کی راہ ہی دیکھ لی یکے بعد دیگرے حکمران جماعت مسلم لیگ ن مسلسل کڑی آزمائش سے گزر رہی ہے اور لگتا ہے ابھی ان کی راہوں میں بہت سے کانٹے ہیں اور انہی کانٹوں بھری راہوں سے حکمران جاعت کو گزرنا بھی ہے پائوں بھی چھلنی ہونگے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف چلنے والے ریفرنس بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا انجام بالخیر ممکن نہیں جب انسان کسی مشکل میں پڑتا ہے تو پھر انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سابق وزیر اعظم میاں صاحب کے بعد نہال ہاشمی اور اب سلطنت عباسیہ کے وزیر خارجہ کو بھی اقتدار کے ایوانوں سے ”خارج” کر دیا گیا ہے جو یقینا حکمران جماعت کیلئے ایک زبردست سیاسی جھٹکا ہے اور اس کے اثرات آنے والے انتخابات میں بھی دکھائی دیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا عدالت نے خواجہ آصف کو 62 ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا حکم دے دیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی فیصلہ پڑھ کے سنایا جو 35 صفات پر مشتمل ہے۔عثمان ڈار نے اقامہ کی بنیاد پر خواجہ آصف کی نااہلی کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور موقف اختیار کیا تھا کہ خواجہ آصف متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں کل وقتی ملازم ہیں، انہوں نے بینک اکاؤنٹ اور تنخواہ بھی ظاہر نہیں کی۔جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے دلائل مکمل ہونے اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد 10 اپریل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جبکہ خواجہ آصف نے فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد اماراتی کمپنی کا خط عدالت میں جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ خواجہ آصف کمپنی کے کل وقتی ملازم نہیں تھے۔خواجہ آصف کی جانب سے فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد دبئی کی انٹرنیشنل مکینکل اینڈ الیکڑیکل کمپنی کا خط عدالت میں جمع کروایا گیا تھا۔ جس می میں کہا گیا کہ کنسلٹیشن معاہدے کے تحت خواجہ آصف کی کمپنی میں کل وقتی موجودگی ضروری نہیں، خواجہ آصف سے کسی بھی معاملے پر تجاویز فون یا ان کے دورہ دبئی کے دوران حاصل کی گئیں۔ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے خواجہ آصف صادق اور امین نہیں رہے وہ آرٹیکل 62 ون ایف کے معیار پر پورا نہیں اترتے، خواجہ آصف عام انتخابات میں این اے 110 سے الیکشن لڑنے کے اہل نہیں تھے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار فیصلہ فوری الیکشن کمیشن کو ارسال کرے، الیکشن کمیشن خواجہ آصف کو فوری طور پر ڈی سیٹ کرے، فیصلے کی کاپی سپیکر قومی اسمبلی کو بھی ارسال کی جائے بظاہر ملازمت کا معاہدہ یو اے ای قانون کو دھوکا دینے کا اعتراف ہے، ملازمت کے فرضی معاہدے کا موقف اس شخص نے اپنایا جو رکن پارلیمنٹ ہے، سیاسی قوتوں کو تنازعات سیاسی فورم پر حل کرنے چاہئیں، سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے سائلین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے پارلیمنٹ فیڈریشن کے اتحاد کی علامت ہے، پارلیمنٹ عزت اور تکریم کی حقدار ہے۔
خواجہ آصف نے کاغذات نامزدگی میں ملازمت کا معاہدہ چھپایا، ملازمت کا معاہدہ چھپانا بلاشبہ مہلک اقدام تھا، خواجہ آصف نے دبئی میں ملازمت کے معاہدے کا اعتراف کیا، عوام کا پارلیمنٹ پر اعتماد ارکان کے کردار پر منحصر ہے عدالتی فیصلے میں کہا گیا درخواست گزار کی جماعت پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھاتی تو مناسب تھا، سیاسی شخصیت کو نا اہل کرنے کے بجائے ووٹرز کے خواب ٹوٹنے کا دکھ ہے خواجہ آصف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے اور کچھ روز پہلے ہی اس آرٹیکل کی سپریم کورٹ نے تشریح کی تھی جس کے تحت اس آرٹیکل کے تحت نااہل ہونے والا شخص تا حیات نا اہل قرار پاتا ہے۔
اسلا م آباد ہائیکورٹ کے باہر پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کو مخاطب کرکے کہا ” خواجہ آصف ! شوکت خانم کے باہر جائواور پھل فروٹ کی ریڑھی لگائو، تمہیں حلال کی کمائی بھی ملے گی اور مریضوں کی دعائیں بھی ملیں گی”لگتا ہے سلطنت عباسیہ کہ مشکلات ابھی کم نہیں ہوئیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کیخلاف عدالت جانے کا اعلان کردیاان کیخلاف آئندہ ہفتے عدالت سے رجوع کیا جائے گا اوربابراعوان کیس کی پیروی کریں گیواضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی اقامہ ہولڈر ہیں اور ان کے پاس سعودی عرب کا اقامہ ہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے نااہلی کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیاجو ان کا آئینی حق ہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا ہے کہ وہ جب سے سیاست میں آئے انہوں نے تب سے اپنے اکائونٹس اور اقامہ ظاہر کیا ہوا تھا جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں بھی ڈکلیئرڈ کیا، جس اقامے کی تصویر دکھائی جارہی ہے وہ خود الیکشن کمیشن کو دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے اقتدار کے ایوانوں میں سوگ کا سماں ہے جبکہ کپتان کے کھلاڑی جشن منارہے ہیں اصل ایشو یہ نہیں کہ کسی کی شکست پہ نازاں ہوا جائے اصل ایشو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اپنے ”اثاثے اور اقامے ”چھپانے کی ضرورت ہی کیا ہے حق حکمرانی پاکستانی عوام پہ کی جاتی ہے جبکہ اقامے بیرونی ممالک کے رکھے جاتے ہیں جب ”اقامے ”رکھے جائیں گے تو تب ”پاجامے” اتریں گے عوام سے جھوٹ بولنے والے سیاست دان صادق اور امین کہلانے کے حق دار نہیں ہوا کرتے اور جو صادق و امین نہ ہوانہیں ناہلی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔