چاروں طرف پھیلی مایوسی کے باوجود قوم کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی دردمیں مسکرانے کا ہنر سیکھ چکے ہیں لہٰذا الیکشن کے موسم کو لوٹا سیزن پکارا جائے تو ماحول زیادہ خوشگوار ہو سکتا ہے۔پاکستانی تاریخ بتاتی ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آتے ہیں لوگ پارٹیاں تبدیل کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔دوراقتدار کے پانچ سال حکومتی پارٹی میں رہ کر ملکی خزانے اوروسائل پر خوب ہاتھ صاف کئے جاتے ہیں اور جب حکومتی جماعت عوامی مقبولیت کھودیتی ہے تو اس وقت کی مقبول ترین جماعت میں شامل ہوکر اگلی حکومت کا حصہ بن کر لوٹ مار جاری رکھنے تک کے سفر میں کوئی لوٹا بھی کہے تو ذرا غصہ نہیں کرتے۔رسم زمانہ ہے کہ بار بار پارٹیاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کو لوٹا کہا جاتا ہے۔
ایسے سیاست دان جن کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی وہ کسی مقبول جماعت کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ،عوامی بدقسمتی سے ان کی ہر کوشش کامیاب ہوجاتی ہے۔وطن عزیز کی ہرسیاسی جماعت یایوں کہہ لیں کہ پارٹی قیادت ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کیلئے نہ صرف ہر وقت تیار رہتی ہے بلکہ اکثر دعوت بھی دیتی ہے۔سیاستدان ایک پارٹی بدلیں یاسو پارٹیاں تبدیل کریں ہمیںکیا،تمہیں کیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارباروفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاسی پرندوں کولوٹاکہنے سے کہیں لوٹے کی کردار کشی تو نہیں ہورہی ؟کیا یہ لوٹے کی وفاداری پر جھوٹا الزام تو نہیں؟آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوٹا جس باتھ روم میں رکھ دیا جائے اُس نے کبھی کوشش نہیں کی کہ وہ دوسرے باتھ میں چلاجائے ،اکثر ٹوٹنے کے بعد ہی جان چھوٹتی ہے لوٹے کی اورپھربے چارہ لوٹا تواپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے اُ سے کسی بھی ایسی چیز کے ساتھ نتھی کرنا کہیں لوٹے کے ساتھ ناانصافی تونہیں ؟جس کی اپنی کوئی پہچان نہیں۔
اب اس بات کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا اس طرح لوٹے کو بدنام کرنا مناسب ہے ؟ کون ہے جو لوٹے کو نہیں جانتا ؟ساری دنیا میں شائد لوٹا ہی ہے جواپنی بدنامی اور بے حرمتی پر احتجاج نہیں کرتا ۔ایک منٹ کیلئے سوچیں کہ لوٹوں نے ہڑتال کردی تو 90فیصد عوام پریشان ہوجائیں گے کیونکہ %10لوگ ہی بغیر لوٹے کے کام چلاتے ہیں باقی 90فیصد کو دن میں5سے4 مرتبہ لوٹے کی ضرورت ضرور پیش آتی ہے۔لوٹاہمارے ایسے ایسے راز جانتا ہے جو ہم خود بھی نہیں جانتے۔لوٹا اُس جگہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے جہاں کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔صدیوں سے لوٹا برادری اپنے فرائض بڑی ہمت اور خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہے کبھی احتجاج نہیں کیا ،کبھی ہڑتال نہیں کی۔کبھی کسی قسم کی شرط نہیں رکھی ،کبھی کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کی۔سچ تو یہ ہے کہ لوٹا بغیر کسی لالچ کے انسان کی خدمت کرتا ہے۔ افسوس کہ انسان نے کبھی لوٹے کی عزت نہیںکی۔آپ روزانہ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ لوٹا کریسی ختم کی جائے۔جس شخص کو سب سے زیادہ براتصور کیا جاتا ہے اُسے لوٹا کہہ دیا جاتا ہے سوشل میڈیا پر بھی لوٹوں کو بہت بدنام کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ بہت سارے لوٹوں کی برہنہ تصویریں پوسٹ کردی جاتی ہیں۔
وہ بھی کرپٹ ترین سیاستدانوں کے ساتھ۔باخبرذرائع کاکہناہے کہ اس بار لوٹا برادری نے احتجاج کی کال دینے کے لیے مشاورتی اجلاس طلب کررکھا ہے کیونکہ اُنھیں کبھی ان چیزوں کی ضرورت نہیں پڑی اس لیے انہوں نے آج تک تنظیم سازی ہی نہیں کی اس لیے وہ پہلے تنظیم سازی کریں گے جس میںعہدیداروں کا چنائو کرکے اُن کو ذمہ داریاں سونپ دی جائیں گی۔وہی عہدیدار آئندہ احتجاج کا لائحہ عمل طے کریں گے کہ برادری کی عزت کو بحال کرنے کیلئے ہڑتال کی جائے گی یا حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔قوی امید ہے کہ اس عمل سے اصلی لوٹوں کو خاطر خواہ فائدہ حاصل ہو اور اس طرح سیاسی لوٹوں کی عزت بھی بحال ہوجائے۔ حکومت لوٹوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اُن کی عزت کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے تو پھر سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے والے سیاست دانوں کو کوئی لوٹا نہیں کہہ سکے گا اس طرح نہ صرف لوٹا برادری کی عزت محفوظ ہوجائے گی بلکہ سیاستدان بھی لوٹے کا خطاب حاصل کیے بغیر ایک سے دوسری پارٹی تک اُڑان بھرسکیں گے۔
اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ لوٹا برادری سیاسی لوٹوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے سپریم کورٹ سے مدد مانگ لے۔ایسا ہوا تو لوٹا برادری بڑی آسانی سے یہ مقدمہ جیت جائے گی اور ہوسکتا ہے سیاسی لوٹوں کو جیل جانا پڑے۔سیاسی لوٹے اپنے آپ کو سزا سے بچانا چاہتے ہیں تواب بھی وقت ہے یا تو پارٹیاںتبدیل کرنے سے توبہ کرلیں یا پھر نام تبدیلی کا اشتہار اخبارات میں چھپوا کراپنے آپ کو لوٹے کی بجائے کسی دوسرے خطاب سے متعارف کروالیں۔ملکی حالات اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ ایک اور احتجاج شروع کیا جائے۔وہ بھی اتنی بڑی برادری کا ملک میں اس وقت لوٹوں کی تعدادکل ملا کے تقریبا 15سے16کروڑ کے درمیان ہے جس میں سیاسی لوٹوں کی تعدا د 2سے 4سوکے لگ بھگ ہے۔کرڑوں کی آبادی رکھنے والے اپنی بے عزتی پر آج تک خاموش ہیں تو اُس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ لوٹوں نے ہڑتال کردی تواُن کی طاقت کا اندازہ ہمیں چند منٹوں میں ہی ہوجائے گا۔ایسے حالات میں پیپسی ،ٹیم اور سپرائٹ وغیرہ کی خالی بوتلوں کی منت سماجت کرنی پڑیگی،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم لوٹوں کو بدنام کرنا چھوڑ دیں اور لوٹوں سے معافی کی قرادا متفقہ طور پر منظور کرکے اُن کو اُن کا کھویا ہوامقام واپس دیا جائے تاکہ وہ سکون و عافیت کے ساتھ اپنا کام کرتے رہیں اور ہمیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com 03134237099