ابھی حال ہی میں مجھے مارننگ شو کی سلائیڈ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو چونک اٹھی اینکر ایک خاتون جو ٹی وی کی معروف اینکر پرسن تھیں علم ہوا کہ انہیں طلاق ہو گئی اور اب بچوں کی کفالت کیلئے پھر سے ڈراموں میں کام شروع کر دیا ہے خود بھی کمائے گی اور چینل مالکان کو لاکھوں کروڑوں کما کر دے گی الٹرا ماڈرن دو عورتیں جنہیں اینکر کہ رہا تھا کہ ہمارے اس شو کی تتلیاں کہاں ہیں کچھ عرصہ بعد ان میں سے ایک کو ٹی وی پر میں دیکھا تو پتہ چلا کہ اسے طلاق ہو گئی ہے اور اب ایک ٹی وی شو کر رہی ہے یعنی اس کا بھی مستقبل بھی شو بز نے بچا لیا ایک جھٹکا پھر ٹی وی دیکھتے ہوئے لگا جب ایک مہمان بڑے فخر سے حاضرین کو بتا رہی تھی کہ بہن بھائیوں میں انہیں پڑہائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور گھر والے بہت پریشان تھے شومئی قسمت پاکستان میں میڈیا کا طوفان اٹھا جس نے ان کی کم تعلیم کا نقص محسوس ہی نہیں کیا ان کی چرب زبانی کو کیش کیا آج وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ دولتمند ہے اور اب ان کے بھائی بہن بھی مانتے ہیں کہ وہ اُن سے زیادہ کامیاب ہے ذرا سوچیں کیا ہے ہمارا معیار؟ یعنی کامیابی کا معیار صرف اور صرف عورت کا بے پردہ اور بے گھر ہونا “”طے “” پایا ؟ شو بز سے تعلق رکھنے والی خواتین کسی بھی گھریلو پریشانی کی صورت میں محفوظ ہیں میڈیا انہیں خوار نہیں ہونے دیتا بلکہ انہیں سہارا دیتا ہے ان کیلئے پیسے کمانا بچوں کو پالنا اچھی تعلیم بہترین تعلیمی درسگاہیں کوئی مسئلہ نہیں پروگرام کے لئے عمدہ جدید ملبوسات دیگر سہولتیں بھی میسر آ جاتی ہیں۔ یوں وہ خواتین زندگی کا پہیہ پھر سے آسانی سے چلاتی ہیں آئیے وطن عزیز میں اسی عورت کا تاریک خاموش مظلوم ناکام چہرہ دیکھتے ہیں
یہ اساتذہ ہیں احتجاج کر رہی ہیں جوآدمی کو معاشرے میں انسان بنا کر معاشرے کو توازن فراہم کرتی ہیں آج خود متزلزل ہو کر بحالت مجبوری بچوں کو بھوکا پیاسا گھر چھوڑ کر دھوپ میں بیٹھی فریاد کناں ہیں؟ حقوق نسواں کی کوئی عالمی تنظیم یہاں نہیں ہے نہ ہی انسانی حقوق کی پاسدار غیر ملکی ادارہ یہاں موجود ہے وجہ؟ سادہ سی ہے یہ وہ عورتیں ہیں جو موجودہ ترقی کی برق رفتاری کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں لہذا کوئی ان کا ساتھ کیوں دے؟ ایک استاذہ بتا رہی ہیں کہ وہ بچوں کی واحد کفیل ہے اور سید زادی ہے کئی مہینوں کی تنخواہ سے محروم ہے اس کی دینی حیثیت بہت معتبر محترم ہے اس کی غیرت اس کی حمیت اسے کسی سے صدقہ خیرات لینے کی اجازت نہیں دیتی مگر یہ پیٹ کا تنور ؟ یہ کسی رقم کو خیرات کا صدقے کا پیسہ نہیں سمجھتا نہ ہی وہ معصوم بچے جو گھر میں بھوک سے بِلبِلا رہے ہوں گے ؟ ماں کی جاب کا سوال ماں کی تنخواہ ملی کا سوال ؟ ماں کی مایوس نگاہوں کی شرمندگی اور نٰڈھال وجود کا خالی کھنکھتے ڈبوں جیسا وجود دو مہینوں سے وہ کیا کھا رہی ہے اور کھِلا رہی ہے اس کا رب جانتا ہے اور وہ دو ہی راستے بچے ہیں اس کے لئے یا تو وہ زندگی جس پر اس کا خمیر نہیں ہے اور یا خودکُشی اس عورت کو دیکھتے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا تو اس جیسی سیکڑوں اور عورتیں چِلچِلاتی دھوپ میں ہماری بے حسی کا ماتم کرتی دکھائی دیں خوار ہوتی یہ عورت وہی ہے جسے غیرت کے نام پر پاکستان کے ہر صوبے میں سہولت سے قتل کر دیا جاتا ہے آج وہ غیرتمند کہاں ہیں؟ کہاں گُم ہیں وہ تتلیوں کے متوالے؟ کہاں ہیں وہ سماجی رہنما ؟ کہاں ہے وہ سول سوسائٹی وہ موم بتی سرکار؟ آخر کہاں چلے گئے یہ سب کے سب جنہیں یہ عورتیں صرف اس لئے نظر نہیں آرہ ہیں کہ یہ پردے میں ہیں حجاب میں ہیں؟ ان کی داد رسی کر کے انہیں کیا ملے گا؟ اگر یہ عورتیں حجاب اتار پھینکیں تو اس ملک کے مخیر حضرات فورا کسی کونے کھدرے سے نمودار ہو جائیں گے آج یہ دوپٹہ سر سے پرے پھینکیں تو ہزاروں گوہر شناس ان کی اہلیت کے گُن گاتے ہوئے انہیں زندگی کی ہر سہولت سرعت سے دیں گے تباہی کیسے نہ آئے اس ملک پر؟ جو حلال مانگے اسے ملے قہر برساتا سورج پیاس بھوک اور کوئی پانی کا گلاس تک نہ مہیا کرے؟ یہ کسی سیاسی جماعت کا دھرنا ہو تو دیکھتے کہ وہاں انواع و اقسام کے کھانے اور فرحت بخش ٹھنڈے مشروبات کی کیا بہار آتی ہے بربادی کیسے ختم ہو اس معاشرے سے جہاں اِس سوچ کو کامیاب قرار دیا گیا جس میں ہُنر کی موت ہے؟
اور جو اہلِ ہُنر ہیں وہ مجرم بنی دھوپ کے ریگستان میں آبلہ پا کھڑی ہیں؟ جن کی خواہشات محدود ہیں وہ سادہ زندگی کیلیۓ کوشاں ہیں یہ کمزور وجود دراصل سراپا بد دعا ہیں اِس عدم مساوت پر مبنی نظام کیلئے جس نے ظلم کو رواج دے کر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بد دعائیں احاطہ کریں گی ان سب کا جنہوں نے ان کا حق مارا یہ نا انصافی اُن جانبداروں کو تباہ کر دیں گی جن کیلئے عورت کی ایک قسم تو قابل قبول اور مدد کے قابل ہے اور دوسری قسم وہ مسترد کرتے ہیں وہ جو بڑے بڑے منصفی کے ایوانوں میں بیٹھ لاکھوں کروڑوں فیس والے سائلین کیلئے “” ہمدرد دوا خانہ”” بنے ہوئے ہیں ان کو یہ بے بس لاچار پریشان حال خواتین دھاڑیں مار مار کر دہائیاں دیتی ہوئی کیوں دکھائی نہیں دیتیں؟ اس لئے کہ ان سے انہیں بھی کچھ نہیں مل سکتا ؟ نہ لاکھوں کی فیس اور نہ ہی کوئی منفرد ٹائیٹل؟ پاکستان یاد رکھنا جس قسم کا جانبدار نمائشی طرز معاشرت تشکیل دیا جا رہا ہے ایسا ہی وہ نظام تھا جو فرعونی تھا طاغوتی تھا ایسے ہر نظام کا آخر کار انجام تباہی ہے بربادی ہے ہلاکت ہے غرقابی ہے مگر جب عورت بزنس کی کامیابی کی ضامن قرار پائے اور عورت کو صرف اشتہار سمجھ کر سامنے لایا جائے یہی لوگ ان خواتین کو راستے کا پتھر سمجھتے ہیں مدد کیسے کریں؟ کاروباری لحاظ سے یہ پر کشش نہیں ہیں؟ آج وطن عزیز میں یہ پڑہی لکھی عورتیں اپنے جائز حق سے محروم “” قوم کی معمار کیسے مِسمار کی جارہی ہیں “” یہ مظلوم عورتیں کیسے روٹی کے نوالے نوالے کو ترس رہی ہیں؟
اللہ ہدایت دے اس سفاک سوچ کو جو معاشرے میں اغیار کے کہنے پر اُن کی دھما چوکڑی کیلئے تو کروڑوں اربوں روپے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دیں مگر زندگی کی سانسوں کو ربط سے چلنے کیلئے چند ہزار جو ان رئیسوں کے ایک وقت کے کھانے کی قیمت ہے ظالموں نے اساتذہ کرام کو اس رقم سے محروم کر دیا؟ یہ حق حلال کما کر کھانے والی معاشرتی بے حسی کا شکار ہو کر ذہنی مریضہ بن رہی ہیں اور یہ ذہنی موت دراصل ان کیلئے بد دعا ہے جو اس کا موجب ہیں یہ سماجی ظلم ان وطن کی معمار خواتین کو لمحہ لمحہ مِسمار کر رہا ہے پاکستانیو اللہ کے قہر سے بچنا ہے تو بچا لوان کو جو تمہاری بے رحمی بے حسی اور پیسے کی غلط تقسیم سے خودکشی کے بہت قریب ہیں ہے کوئی وطن کے معماروں کو مِسمار ہونے سے کوئی بچانے والا؟ کوئی ہے؟