دنیا بھر آباد سکھوں نے اپنی شناخت اور ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت کی اقلیتوں کے ساتھ جانب دارنہ رویوں کے سبب الگ ریاست کے لئے خالصتان 2020 ریفرنڈم کا اعلان کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں سکھ برداری کی جانب سے خالصتان 2020 ریفرنڈم کے لئے باقاعدہ تحریک کو منظم کیا جارہا ہے ۔ اس سے قبل بھارت میں آباد سکھوں کی جانب سے آزادی کی تحریک میں شدت آگئی تھی لیکن بھارت کی جانب سے فوجی آپریشن کر کے خالصتان تحریک اور سکھوں کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرتے ہوئے فاشٹ نظریئے کو اپنایا تھا ۔ وقتی طور پر تحریک خالصتان کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن سکھ قوم بھارت کے ظلم و استبداد سے آزادی کی تحریک سے دست بردار اور اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے تیسرے درجے کی اقلیت بننے سے انکار کرچکی ہے ۔ بھارت نے پاکستان پر ایک بار پھر جھوٹے الزامات عائد کئے کہ پاکستان بیساکھی کے موقع پر آنے والے سکھوں کو بھارت کے خلاف استعمال کررہا ہے اور اس کی سرپرستی پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کی جانب سے کی جا رہی ہے ۔ پاکستان نے بھارت کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے تمام جھوٹے الزامات رد کردیئے ہیں۔ پاکستان کسی بھی ملک میں کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو غیر جانب دار رکھنے کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے ۔ بھارت میں علیحدگی پسند تنظیموں کا وجود ابھی سے نہیں بلکہ تقسیم ہندوستان کے بعد سے ہی مختلف علیحدگی پسند تحریکوں نے بھارت میں انضمام کو جبری اور عوامی منشا کے برخلاف قرار دیتے ہوئے آزاد ریاست کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کو ترجیح دی تھی۔ لیکن بھارت کی جانب سے تقسیم ہندوستان کے فارمولے کے برعکس جبری اقدامات کی وجہ سے کئی ریاستوں میں بھارت کے خلاف فکری و مسلح مختلف تحریکوں نے جنم لے لیا تھا اور بھارت کے خلاف کھل کر اپنی آزادریاستوں کے قیام کے لئے مزاحمت شروع کردی تھی۔
بھارت چالاک لومڑی کی طرح پاکستان کے خلاف سازشیں رچاتا رہتا ہے اور پاکستان کے خلاف سازشوں کی سرپرستی کرنا وتیرہ بنا لیا ہے ۔ اس لئے بھارت اپنی مذموم سازشوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدت پسند رویہ تبدیل کرنے کے بجائے اپنی کوتائیوں و ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد ہی ریاست تامل ناڈو کی تامل علیحدگی پسند تحریک اور سکھوں کی ‘اکالی دل’ ،’ خالصتان ‘ جیسی تحریکوں نے بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کردی تھی ۔ خاص طور پر خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے بھارتی فوج مظالم کی تاریخ رقم کرچکا ہے۔ سکھوں کی آبادیوں پر ٹینک چڑھانا ، تحریک کے رہنمائوں کے گھر و دفاتر پر چھاپے انہیں ماورائے قانون عقوبت خانوں میں رکھنا ، قتل عام اور انتہائی شرمناک عمل سکھوں کے مقدس ترین مقام ” گولڈن ٹیمپل” کو مسمار کردینا ، بھارتی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ سکھ قوم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بھارتی ریاست کی دہشت گردی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ بھارتی ہندو شدت پسند حکومت پرسکھ قوم اعتماد نہیں کرتی کیونکہ انہیں بھارت میں تیسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا ہوا ہے۔
بھارت میں سکھ قوم کے ساتھ زیادتیوں اور ریاستی جبر کے احوال سے قبل اگر ہم اجمالی جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ بھارت میں اس وقت کئی علیحدگی پسند تحریکوں نے مسلح مزاحمت کو اپنا یا ہوا ہے۔ بھارتی ہندو انتہا پسند ریاست ان تحریکوں کو طاقت کے زور پر دبانے کے لئے ہر ناجائز حربہ اپنانے سے گریز نہیں کرتی۔ بھارتی ذرائع ابلاغکے مطابق صرف آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ایسی ہیں جو 162اضلاع میں ریاست کے مقابلے میں مضبوط اور خود مختار ہیں اور ان اضلاع پر ان علیحدگی پسند تنظیموں کا مکمل کنٹرول ہے۔ شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلا نے والی سات ریاستیںآسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام،منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ،بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ،مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بڑی مسلح مزاحمتی تنظیمیں موجود ہیں ۔ جو بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کررہی ہیں۔ ان تحریکوں میں نکسل تحریک جو مغربی بنگالی کے گائوں نیکسل باڑی سے شروع ہوئی تھی اس مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت نے طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا ۔ باغی چین کے عظیم انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کے نظریات سے متاثر ہ ماؤسٹ یا ماؤ باغیوں کہلاتے ہیں۔ اس تحریک کے ہزاروں ماؤ باغی’عام شہری بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکا روں کے ریاستی طاقت کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران بھارتی فوج کے ایک ہزار سے زائد اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں نیکسل باڑیوں نے مسلح مزاحمت برپا کر رکھی ہے۔ بھارتی سکیورٹی ادارے ماؤ باغیوں کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا جو ناکامی سے دوچار ہوا اور ماؤ بغاوت کوختم نہ کیا جا سکا۔ ایک بھارتی ادارے ”انسٹی ٹیوٹ آف کونفیلکٹ مینیجمنٹ”کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ باغی اپنی قوت بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اوروہ خودکو مزید طاقتور بنانے کے لئے جہاں شمال مشرقی ریاستوں میں کئی علیحدگی پسند تنظیموں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں وہیں پورے ملک کے آزادی پسندوں کے ساتھ بھی تعاون کر کے اپنا دائرہ اثر وسیع کررہے ہیں۔ 70کے قریب ان علیحدگی پسند تحریکوں میں مندرجہ ذیل زیادہ منظم سمجھی جاتی ہیں۔
بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں میں ریاست آسام میں یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ برچھا کمانڈوز، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا،مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگر فورس اور پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ بھی قابل ذکرہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں لشکر عمر، البرق، الجہاد فورس، تحریک جہاداسلامی، حزب المجاہدین وغیرہ بھارتی قبضے کے خلاف سرگرم عمل ہیں جبکہ پنجاب میں ببر خالصہ انٹر نیشنل،خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈوز، بھنڈرانوالہ ٹائیگرز، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی اور ریاست منی پورمیں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس اور ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل اور تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فوس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل والنٹیئر فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز،بنگالی رجمنٹ اور میز و رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ سمیت کئی تنظیمیں بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے مسلح مزاحمت کررہی ہیں۔ آسام میں ”یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام”،”مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام””بوڈو سکیورٹی فورس” مانی پور کے باشندوں کی ”پیپلزلبریشن آرمی آ ف مانی پور”، ریاست تری پورہ میں ”نیشنل لبریشن فرنٹ آف تری پور ہ”آل تری پورہ ٹائیگر فورس، میگھالیہ ریاست میں”نیشنل لبریشن کونسل”کام کر رہی ہے اور اسی طرح ایسٹ انڈیالبریشن فرنٹ ریاست آرنچل پردیش میں بھارتی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کررہے ہیں۔کشمیر، منی پور ہ، آسام ودیگر ریاستوں میں نہ صرف علیحدگی پسندوں بلکہ عام شہریوں کے خون سے بھی ہولی ‘بے دریغ قتل عام ‘املاک کو جلانا’خواتین کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ آسام ریاست کے حوالے سے بتایا جاتا ہے یہاں کے قدیمی باشندوں نے17 بار مغلوں کو شکست دی تھی ۔ آسام تقسیم ہندوستان کے فارمولے کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔بھارتی حکومت 71کے بعد سے ابتک20ہزار آسامی کو قتل کرچکی ہے ۔آسام کی کل آبادی میں 30فیصد مسلمان آباد ہیں جو کشمیر کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ آسام میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی گئی اور خصوصی ایکٹ اے ایس پی ایس اے اے لگا کر بھارتی سیکورٹی فورسز کے اختیارات میں بے انتہا اضافہ کردیا گیا جس کے نفاذ کے بعد آسام میں ہزاروں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جس سے بھارت کے خلاف علیحدگی پسندی کو فروغ ملا ۔آسام کے باشندے سمجھتے ہیں کہ دنیا کو بہت کم ہمارے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں ۔ بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کے حوالے سے خود بھارتی عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا بھارتی ہندو انتہا پسند ریاست ایسے لوگوں کی کمیونٹی کی تعمیر کررہے ہیں جو بھارت کے مضبوط مستقبل کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ یا پھر کیا بھارتی عوام نے سنجیدگی سے یہ سوچا ہے کہ شمال مشرقی بھارت میں آزادی کی تحریک کیوں فعال ہے؟۔بھارت سے آسام کی آزادی تحریک کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟۔کیا آسام اگلا کشمیر بننے کے کنارے پر ہے؟۔کیا بھارت کی جمہوری و سیکولر ساخت مضبوط ہے جیسا کہ اس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے۔ نگالینڈ، کشمیری آزادی تحریک، خا لصتان اور تامل تحریک، نکسالائٹ، دراصل بھارت کا حقیقی جمہوری چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔
بھارتی عوا م کو سوچنا ہوگا کہ بھارت میں علیحدگی کے لئے بہت سے آزادی کی تحریکیں کیوں ہیں؟۔یہاں ایک بات قابل توجہ بھی ہے کہ جہاں جہاں آزادی کی تحریکوں میں شدت پائی جاتی ہے وہاں سامراجی نظام انتہائی مضبوط دکھائی دیتا ہے۔جموں کشمیر میں کوئی صنعت قائم نہیں ہے۔ بھارتی پنجاب میں زراعت کی وجہ سے کافی گائوںمضبوط معیشت رکھتے ہیں ، لیکن وہاں بھی سامراجی نظام کی جڑیں کافی مضبوط کی گئی ہیں۔خالصتانی تحریک کو بھی اسی تناظر میں دکھا جاتا ہے کہ سامراجی نظا م کی کامیابی کے لئے ان کا استحصال معمول بن چکا ہے ۔ مزدور قوت کے ساتھ تنازعات اور مسلسل استحصال نے ہی بھارت میں آزادی کی تحریکوں کو جنم دیا اور انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے جبر و تسلط کے نظام کو خود پر حاوی کرنے سے روکنے کی کوشش کی ۔ جس بنا پر ہی ریاست سامراجی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے عصبیت ، فرقہ واریت اور جانبداری کا احساس جنم لیتا ہے ۔ احساس محرومی کی وجہ سے علیحدگی پسند تحریکیں اپنے حقوق اور تاریخی حیثیت کے مطابق ریاست سے جائز حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن انہیں بزور طاقت غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جب بھارتی ہندو انتہا پسند چہرے پر نقاب سیکولر ازم او ر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لبادے کے ساتھ ہو تو ظاہری نقاب کے پیچھے ظلم کا مکروہ چہرہ نمایاں ہو جاتا ہے۔
. ہم خا لصتانی تحریک اور کشمیر کی آزادی کی مزاحمت کو دیکھتے ہیںکہ سرمایہ داری اور صنعتی ترقی کی ترقی کے آڑ میں سامراجی نظام آہستہ آہستہ ان کی گرفت کو روک دیتا ہے، زمانے کے نظام کو برباد کر دیتا ہے، مزدور قوت کو آئے روز ایک نئے تنازعہ کا سامنا ہے جس میں مزدور اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوجارہی ہے ۔ کشمیر تا آسام اور تحریک خالصتان سمیت بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے والی تحریکوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ بھارت کا نام نہاد سیکولر چہرہ دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے ہے ۔ بھارت اپنے ملک میں انتشار ، خلفشار اور بغاوت کے اسباب کو فرو کرنے بجائے پاکستان پر ہی اپنی ہر ناکامی کا ملبہ گرا کر اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ بھارت اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے پاکستان اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں مذموم سازشوں کے ساتھ بے بنیاد پروپیگنڈوں میں مصروف ہے۔ چین ، افغانستان ، پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کی فنڈنگ ، سیاسی عدم استحکام کے لئے لسانی ، مذہبی گروہ بندیوں کی سرپرستی کرنا اور بے بنیاد پروپیگنڈوں سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوششیں دراصل بھارت کی بنیادی پالیسی بن چکی ہے۔
اقوام عالم کو دھوکہ دینے کے لئے بھارتی اپنے ہندو انتہا پسند رویوں پر پردہ ڈالنے کے لئے علیحدگی پسند تنظیموں کو خودمختاری کے حصول کی تحریکیں قرار دیتا ہے ۔ بھارت کا یہ جھوٹ تسلیم کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں دراصل بھارت کے جبر و تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ بات یہاں صرف مقبوضہ کشمیر سے آسام تک محدود نہیں ہے بلکہ پنجاب سمیت دنیا بھر میں آباد سکھ قوم اپنے حق اور احساس محرومی سے نجات کے لئے بھارت کے جھوٹے سیکولر نقاب کو اتار کر آزادی و خود مختاری کے لئے مزاحمت کررہی ہیں۔ بھارت کی دوسری تحریکوں کے حوالے سے ریاست کی کمزوریوں اور جبر کو اس حوالے سے مانا جاتا ہے کہ بھارت کی دوسری ریاستوں کے ساتھ ان علاقوں میں ایک کمزور ثقافتی منسلک ہے اور ان کے اپنے رواج ہی مضبوط منسلک ہے۔بھارت اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تنوع میں اتحاد کی علیحدگی پسند تحریکوں کو روکنے میں کامیاب ہوسکے۔جب کہ علیحدگی پسندبطور قوم کے طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے وسائل کا استحصال کیا جارہاہے اور ن کی ثقافت کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔خالصتان ریفرنڈم2020کا جب سے اعلان کیا گیا ہے اس وقت سے بھارتی ہندو انتہا پسند حکومت کی جانب سے خالصتان تحریک کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
اندرا گاندھی کے حکم پر امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین مرکزی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کے خلاف ریاستی یلغار کے ردعمل میں 31اکتوبر1984میں بھارتی وزیر اعظم ان کے اپنے ہی سکھ محافظوں سنونت سنگھ اور بینت سنگھ نے قتل کردیا تھا ۔اس واقعے کے بعد پورے بھارت میں سکھ قوم کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس کا اندازہ صرف نیو دہلی میں آباد 20ہزار سکھوں کے قتل عام سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں اندراگاندھی کابینہ کے تین وزرا کو بھی ذمے دار قرار دیا گیا تھا۔تقسیم ہندوستا ن کے وقت ہی جواہر لال نہرو کے وہ خطوط کے راز کپور سنگھ نے پمفلٹ کے صورت میں افشا کردیئے تھے ۔جس میں جواہر لال نہرو نے بھارتی پنجاب کے تمام کمشنروں ، ڈپٹی کمشنروں کو احکامات دیئے تھے کہ سکھوں کے ساتھ درشت اور جرائم پیشہ قبیلے کے طور پر سلوک کریں ۔اگر کوئی سکھ پاکستانی پنجاب میں جانے کی کوشش کرے تو بلا جھجھک گولی مار دی جائے۔اکالی دل نے1947میں ہی نہرو سرکار کے خلاف تحریک چلانا شروع کردی تھی جسے دبانے کے لئے بزور طاقت ان گنت سکھوں کو قتل کیا گیا ۔ بھارت حکومت نے سکھوں کی یک جہتی کو کمزور کرنے کے لئے مشرقی پنجاب کو 1966میں ہریانہ ، ہماچل پردیش سمیت تین حصوں میں بانٹ دیا ۔مغربی پاکستان سے ہجرت کرنے والے سکھوں کو نیو دہلی و مشرقی پنجاب سے اس طریقہ کار آباد کیا گیا کہ وہ مشرقی پنجاب کی طرف نہ جا سکیں۔سکھوں کے ساتھ نا انصافیوں و قتل و غارت کی بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سکھ قوم کی جانب سے مقبوضہ کشمیرریفرنڈم کی طرز پر دنیا بھر جون2020کو ایک عالمی ریفرنڈم منعقد کرنے اعلان کیا گیا ہے ۔ جس میں دنیا بھر میں آباد سکھ کیمونٹی اپنی رائے کے ذریعے اقوام عالم سے مطالبہ کرے گی کہ سکھ قوم کے تحفظ اور انسانی حقوق کے پامالی و نسل کشی کے خلاف بھارتی حکومت کو روکا جا سکے۔
خالصتان تحریک بھارت کا داخلی معاملہ ہے ۔ لیکن تقسیم ہندوستان کے بعد سے بھارت نے کئی ریاستوں پر جبراََ قبضہ کیا اور کئی ریاستوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا ۔ جس کی وجہ سے بھارتی ریاستوں میں احساس محرومی نے مسلح مزاحمت کا روپ دھار لیا ۔ بھارت نے یہ رویہ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا اور اسی مذموم منصوبے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں انتہا پسند فوجیوں کو مسلط کردیا گیا جہاں بھارتی سیکورٹی فورسز نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ نوجوان ، بوڑھے ، خواتین وہاں محفوظ نہیں ، بچیوں کی عصمتیں تار تار کیں جا رہی ہیں ، یہاں تک کہ اب ریاستی منصوبے کے تحت مسلم کشی و مسلمانوں کو بیدخل کرنے کے لئے منظم طور فاشٹ ریاستی منصوبے کے تحت ، خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے بعد معصوم آصفہ جیسی بچی کے ساتھ گھنائونے زیادتی و قتل کے واقعات کئے جا رہے ہیں ، آصفہ کے مجرموں کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے ، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مجرموں کی رہائی کے لئے مظاہرے اور معصوم آصفہ کے اہل خانہ کو خوفزدہ کیا جارہا ہے ۔ معصوم آصفہ کے لئے انصاف طلب کرنے والی خاتون وکیل کو بھی کھلے عام دہمکی دی جارہی ہے۔
اسکول طالبات و نہتے عوام کے خلاف ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ ان حالات میں جب بھارت میں آباد دیگر قومیتیں اپنی ریاست کے جبر و ظلم کو دیکھتی ہیں اور ان واقعات کے ساتھ اپنا موازنہ کرتی ہیں تو اس حوالے سے ان تحریکوں کے تحفظات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ بھارت میں مسلح مزاحمتیں چند ہفتوں ،مہینوں یا کچھ برسوں کی پیدا وار نہیں ہیں بلکہ بھارت کا معتصبانہ رویہ شروع دن سے ہے ۔ ان حالات میں پاکستان اس بات پر عمل پیرا ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام عالم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر اپنا کردار ادا کرے بھارت کو پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے لئے اپنے انتہا پسندوں کو بھیجنے سے روکے ، لائن آف کنٹرول پر سنگین خلاف ورزیوں پر بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کی قرا دادوں کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ بلوچستان ، کراچی اور پختونخوا میں دہشت گردی کے لئے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے نیٹ ورک افغانستان سے ختم کرائے ۔ بھارتی حکومت میں مختلف ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کے اصل اسباب و مسائل پر توجہ دے ۔ ریاستی کوتائیوں اور جانبدار پالیسیوں کے نتیجے میں اٹھنے والی مزاحمتی تحریکوںکی ذمے داری بھارتی حکومت پرعائد ہوتی ہے ، اسی طرح سکھ قوم کے ساتھ بھارتی حکومت استحصالی رویہ اپنائے ہوئے ہے اسے مذاکرات کی میز پر حل کرے ۔ اگر بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سکھوں کے ساتھ اس کا رویہ درست اور بہتر ہے اور تحریک خالصتان کا یجنڈا درست نہیں ہے تو پھر اقوام کے سامنے ریفرنڈم 2020بھارت میں بھی منعقد کرائے ، مقبوضہ کشمیر کی عوام کو بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق رائے دہی استعمال کرنے دے ۔ جبر و طاقت کے بے جا استعمال سے کسی بھی قوم کو دبایا نہیں جا سکتا چاہے وہ کشمیری مسلمان ہوں ، سکھ یا ہندو دلت ہوں ، آسام ہو یا دیگر ریاستوں کی مظلوم قومیں ۔۔جبر سے کسی بھی قوم کو وقتی طور دبایا تو جاسکتا ہے ، اُسے ختم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہی قانون ِ قدرت ہے۔ بھارت پڑوسی ممالک میں مداخلت اورپنے شدت پسند و انتہا پسند رویئے کو ختم کرے ۔ پاکستان کی طرح کسی بھی مملکت میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی ہی خطے میں امن کی کنجی ہے۔