ایک طرف جہاں نگران حکومت کے آثار معدوم ہونے لگے ہیں وہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تیاریاں بھی سو فیصد مکمل نہ سکی ہیں فی الحال ایک ہی عمل ہے وہ ہے احتسابی عمل جو طویل ہوتا جارہاہے ، شریف خاندان کے لیے جاری احتسابی عمل تقریباًتکمیل کے قریب پہنچ چکاہے عدالتیں ہیں کہ بس اپنا فیصلہ سنانا ہی چاہتی ہیں ،پنجاب میں اس کے علاوہ مزید گرفتاریوں کے امکانات شروع ہوسکتے ہیں جس میں بیوروکریسی سمیت متعدد سیاستدانوں کی لمبی فہرست دکھائی دیتی ہے اس کے بعد دورسرا مرحلہ سندھ کی جانب رخ کرتا دکھائی دے رہاہے ،اور اس کے آثار مجھے انتہائی بھیانک دکھائی دیں رہے ہیں یعنی سندھ میں آنے والے اس طوفان کا پہلا حدف پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ان کا خاندان بنتا ہوا دکھائی دے رہاہے ،جن میں پیپلزپارٹی کے وزراء اراکین پارلیمنٹ سمیت وہ بیوروکریٹس جن کا براہ راست تعلق آصف زرداری یا پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ رہاہے ان کی شامت آسکتی ہے۔ اس سلسلے میں عزیر بلوچ کی لیے بنائی گئی جے آئی ٹی اہم کردار اداکرسکتی ہے۔
ان ساری باتوں کا ہونا یقینی ہوتا ہوا دکھائی دے رہاہے جبکہ اس طوفان میں سندھ کارڈ کا جو کھیل ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا سندھ کارڈ جو کسی زمانے میں استعمال ہوتا تھا جس میں یہ کہا جاتاتھا کہ سندھ کے وزیراعظم کے ساتھ اور سلوک ہوتا ہے اور پنجاب کے وزیراعظم کے ساتھ اور سلوک کیا جاتاہے اسی سندھ کارڈ کو پیپلزپارٹی گزشتہ تیس چالیس سالوں سے مسلسل استعمال کررہی ہے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی رہی ہے مگر اب اس کارڈ کے استعمال کرنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں کیونکہ جس انداز میں پنجاب کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ سلوک کیا گیا ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔فی الحال سندھ میں احتساب کا عمل اس لیے بھی ضروری سمجھا جاسکتاہے کہ کہیں یہ سوال جنم نہ لے سکے کہ موجودہ احتسابی عمل کا محور صرف اور صرف شریف خاندان کے اردگردہی گھوم رہا تھا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ہر ایک شہری یہ جان چکاہے کہ اگر پاکستان کے سابق وزیراعظم نے قومی دولت کو نقصان پہنچایاہے تو پیپلزپارٹی والوں نے اپنے ہر دور میں جو لوٹ مار کی ہے وہ بھی کسی لحاظ سے معافی کے قابل نہیں ہو سکتی۔اس ملک کے ادارے اچھی طرح جان چکے ہیں کہ کس کس نے اس ملک کے وسائل اور قومی دولت کا صفایا کیاہے لہذا گناہگاروں کی اس فہرست میں پیپلزپارٹی کے لوگوں کی ایک لمبی لائن دکھائی دیتی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی سزاو جزا کے بعد ایک نیا سلسلہ جو شروع ہوا چاہتا ہے وہ سندھ میں کرپٹ عناصر کی گرفتاریوں کا ہے اوریقیناً یہ کہاجاسکتاہے کہ ہمارے احتسابی اداروں نے اپنا ہوم ورک اس سلسلے میں مکمل کرلیا ہے اور وہ ان لوگوں کے خلاف آخری رائونڈ کھیلنے کے لیے ان کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
سندھ میں کرپشن کے بھانڈے پھوڑنے کے لیے شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کی جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کی روشنی میں اگر احتساب شروع ہواتو لوگ یقیناً یہ بھول جائینگے کہ نوازشریف اور اس کے خاندان کے ساتھ کیا سلوک ہو اتھا ،کیونکہ عزیربلوچ ،شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں کا حکومتی اداروں کی تحویل میں ہونے کے باعث اب سندھ کے کرپشن زدہ حکمرانوں کے ارد گرد پہنچنا مشکل نہیں رہاہے جو باقی لٹیروں کی چھترول کے لیے سلطانی گواہ بھی بن سکتے ہیں ۔جس اندازمیں شرجیل میمن کے پاس سے اربوں روپے برآمد ہوئے ہیں اسے کسی بھی لحاظ سے عقل ماننے کو تیارنہیں ہوسکتی کہ ایک صوبائی وزیرکے پاس ایسی کونسی مشین ہے جو راتوں رات اس قدر پیسہ چھاپ سکتی ہے، اطلاعات کے مطابق شرجیل میمن اپنی کرپشن کی داستان کو حقیقت کا رنگ دے چکاہے یعنی اس نے تسلیم کرلیا ہے کہ اس نے یہ پیسہ کیسے بنایا اور یہ بھی اگل چکا ہے کہ کس کس نے کرپشن کے فارمولے کے تحت دولت اکھٹی کی ہے، ایک اطلاع کے مطابق سندھ کے اسپیکر اسمبلی آغا سراج درانی کی یہ آوازسنائی دی گئی ہے کہ وہ اپنے محلے داروں اور پڑوسیوں کو کہتا پھر رہاہے کہ یہ کروڑوں روپے کی رقم اپنے پاس رکھ لواور یہ رقم اب تمھاری ہی ہوگئی ہے بس اسے میرے پاس سے لے جائو ،مگر جب پریشان حال اسپیکر قومی اسمبلی کا وہ پیسہ جب کوئی بھی اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں ہوتا تو وہ اس کروڑوں کی رقم کو جو تقریباً پچاس کروڑ بتائی جاتی ہے اسے جلادیا جاتاہے ،یہ باتیں جھوٹ بھی ہوسکتی ہیں مگرسچ کیا ہے سب عوام کے سامنے آجائے گا، یقینا یہ باتیں قیاس آرائیوں پر مشتعمل ہو مگر حقیقت کیا ہے اس کے آشکار ہونے میں اب کچھ ہی ہفتوں کا وقفہ دکھائی دے رہاہے ، ویسے بھی قومی احتساب بیورو کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف مبینہ طور پرآمدن سے زائد آثاثے بنانے کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
میرا اپنے پڑھنے والوں سے سوال ہے کہ جس اندازمیں اربوں روپے کا پیکج ہرسال صحت ،تعلیم ،کھیل ،صاف پانی اور عوام کی زندگیوں کے نام پر رکھا جاتاہے وہ کہاں جاتاہے ؟۔ان تمام محکموں کا ایک ایک وزیر ہوتاہے جس کے نیچے وہ ہی گلی سڑی بیورکریسی کے لوگ جو کرپشن کے ہرفن مولا ہوتے ہیں ، جب ان وزیروں کو یہ سالانہ اربوں روپیہ ملکی اداروں کی بحالی اور بہتری کے لیے دیا جاتاہے تو پھر کیا ہوتاہے ، اس کا سادہ سا جواب ہے، کیا سندھ میں صحت کے مراکز ٹھیک طرح سے کام کررہے ہیں ؟کیا سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار درست ہے ؟ان میں ادویات ہیں ؟ کتنی ایمبولینسز ہیں جو کام کررہی ہیں اورکتنی ناکارہ یا عوام کی خدمت کررہی ہیں؟
کیا سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا عملہ ہے ؟یا دیگر اسٹاف اپنا کام کررہاہے ؟،یقینا مریضوں کی ایک طویل لائن ہسپتالوں کے گیٹوں پر پڑی ہوئی ملے گی جنھیں یا تو بیڈ نہیں ملتایا پھر سہولتیں نہیں مل پاتی تو پھر وہ ہرسال ملنے والا اربوں کا بجٹ کہاں جاتاہوگا ؟، جس کا جواب یقینا یہ ہے کہ جن وزراکے ڈرائینگ رومز سے اربوں روپپہ برآمد ہواہے وہ پیسہ ان ہی غریب مریضوںکے نام کا تھا جو ہسپتالوں کے باہر سسک سسک کرمررہے ہیں سندھ میں صحت کا یہ حال کے روزانہ درجنوںمعصوم بچے بھوک سے مرجاتے ہیں اور وزرا کروڑوں روپیہ شرابوں کی محفلوں میں اڑادیتے ہیں یا پھر پکڑے جانے کے خوف سے نزرآتش کردیتے ہیں۔ محترمہ فریال تالپور صاحبہ سے کوئی پوچھے کہ لاڑکانہ کے لیے جو 90ارب روپے مختص کروائے گئے تھے اس کا کیا گیا؟ اس انداز میں پتہ نہیں کتنے نوئے ارب روپے بٹتے رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جس انداز میں یہ احتسابی عمل شروع کیاہے اس نے اس ملک کی غریب عوام کے دلوں کو جیت لیاہے۔ مگر صرف شریف خاندان ہی نہیں اس ملک کو زرداریوں ،چودھریوں اوربہت سے اقتدار کے شوقین خاندانوں نے لوٹاہے ان سب کا ہی احتساب ہونا چاہیے۔ ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔