پاکستانیوں نے 1997 سے لیکر اب تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی ہر آواز پر لبیک کہا اور کہتے رہے آج کل میاں صاحب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگوا رہے ہیں اور ہزاروں پاکستانی لگارہے ہیں ۔پاکستان کے ہر گلی ، محلے میں یہ بحث عام ہے میاں صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بجائے ’’ووٹرکوعزت دو‘‘ کا نعرے کیوں نہیں لگوائے ۔پاکستان میں رواں ماہ (مئی ) کے آخری ہفتے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات 2018کا اعلان متوقع ہے ۔اور حسب روایات ہر سیاسی جماعت کی جانب سے عوامی جلسوں کا انعقاد کیا جارہاہے سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (نواز)،پاکستان تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں سرفہرست ہیں۔اگربات کی جائے کامیاب جلسوں کی تو2018میں سب سے پہلے کامیاب جلسہ تحریک انصاف کا مینار پاکستان لاہور ہوا کیونکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے اور اس جلسے میں عمران خان نے بجائے سیاسی مخالفین تنقید کرنے کے حقیقت پر مبنی تقریر کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے سے عوام کو آگاہ کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا2018میں پہلا کامیاب جلسے سے خطاب ہے جو پاکستان کے گلی ، محلوں میں زیر بحث ہے اور سیاسی مخالفین پریشان بھی ہیں ۔ خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے چند ورزاء رانا ثنا ء اللہ ، عابدشیرعلی اور طلال چودھری وغیرہ کی جانب سے جلسے کے ردعمل میں خواتین بارے نازیبا الفاظ کا استعمال کیاگیا ۔ حالانکہ ان تمام ورزاء کا تعلق مسلم لیگ ’’ن ‘‘ کے ساتھ ساتھ ایک مہذ ب خاندان سے بھی ہے ۔اس بات یہ ثبوت ہے صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے عوامی ردعمل اور مذمتی قراردادوں کی منظوری کے ساتھ ہی اپنی غلطی پر معذرت کرلی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے مسلم لیگ’’ ن‘‘کے رہنماؤں کی جانب سے خواتین بارے نازیبا الفاظ کے استعمال پر قوم سے معافی مانگی گئی ہے تو دوسری جانب مینار پاکستان لاہور میں تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعدمختلف جلسوں میں قائد مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کی جانب سے کچھ نام لے کر اور کچھ بغیر نام لئے شخصیات پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قوم سے مذاق کر رہی ہے، عمران خان صاحب آپ کے ساتھ ہمارا کوئی مقابلہ نہیں آپ تو کوئی شے ہی نہیں ہو، زرداری صاحب نوازشریف کا آپ کے ساتھ بھی کوئی مقابلہ نہیں،ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق کے ساتھ ہے جو نظر نہیں آ رہی ،فیصلے دینے والے یہاں آ کر عوام کا جذبہ دیکھیں۔
اگربات کی جائے عوامی رائے کی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگلے 70 سال ایسے نہیں ہوں گے جیسے گزشتہ 70 سال گزرے ہیں،اگلے 70سال پاکستان کی خوشحالی کے سال ہوں گے، نواز شریف کا کہنا تھا کہ 2018کے انتخابات کو ریفرنڈم اور انقلاب سمجھیں ،اس مقابلے میں عوام میرے ساتھ ہیں ،نوجون نواز شریف کے شانہ بشانہ چلیں گے اور ملک کی تعمیر کریں گے ،یہ غریبوں کے لئے روزگار اور روشنی کا سال ہو گا،تحریک انصاف تو کوئی چیز ہی نہیں ہے،میاں صاحب کا بیان حقیقت بر مبنی ہے کہ مسلم لیگ ن نے جو کام کر کے دکھائے ہیں۔وہ کوئی اور نہیں کرسکتا، جنوبی پنجاب کا دل جاگ رہا ہے،پورا پاکستان جاگ رہا ہے، میں بہت خوش نصیب ہوں عوام کی یہ محبتیں آسانی سے نہیں ملتیں ۔میاں صاحب تاریخ گواہ ہے اگر بات کی جائے سنہ 1997کی تو کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ’’قرض اتارو ملک سنورو ‘‘ مہم کے دوران تقریباً2 ارب81 کروڑ روپے جمع ہوئے تھے ۔ قرض اتارنے کا پروگرام 1999میں بندکر دیا گیاتھا اور 2005میں اس کا اکاؤنٹ بھی بند کر دیاتھا ، 2ارب 85کروڑ روپے میں سے حکومت کو 2ارب تین کروڑ روپے کے عطیات تھے، 47کروڑ روپے قرضہ حسنہ اور 30کروڑ روپے براہ راست اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے۔
مبصرین ، ماہرین اور سیاسی لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کو ’’ووٹرکوعزت دو‘‘ نعرہ پسند نہیں کیونکہ شریف فیملی کے خلاف تقریباً80 سے زائد شکایات کی مختلف اداروں میں جن لوگوں کی جانب سے درخواستیں جمع کروائی گئیں وہ سب ووٹر زہی تو ہیں۔ شکایات میں کہا گیا ہے کہ میاں نوازشریف نے الیکشن میں وہ گو شوارے بھی نہیں جمع کروائے تھے کہ انہوں نے جب اپنے لیے پرائیوٹ ہیلی کاپٹر خریدا تھا تواس کا ٹیکس تقربیاً 30 ملین روپے بھی جمع نہیں کروائے وغیرہ وغیرہ ۔قرضوں کے حوالے سے ’’اتفاق فاؤنڈری کی سکیورٹی کیلئے تقریباً5.1بلین روپے ، برادرز شگر ملز کیلئے تقریباً302.8ملین روپے ، برادرز ٹیکسائل کیلئے تقریباً93ملین روپے ، برادرز اسٹیل ملز تقریباً392ملین روپے ،رمضان شگر مل اور سرج ٹیکسٹائل کیلئے تقریباً 102.8ملین روپے ،اتفاق شگر ملزکیلئے تقریباً385.6ملین روپے ، اتفاق ٹیکسٹائل کے تقریباً368.7 ملین روپے، اتفاق برادرزکے نام پر تقریباً239.8ملین روپے حاصل کرنے وغیرہ وغیرہ کے الزامات ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’ووٹرکی عزت ‘‘ کے لئے ہمیں خود ہی کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کو فارغ کر کے اپنے سر سے سیاسی قرض اتارنا ہوگا۔ ورنہ ہماری نسلیں مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری اور لاقانونیت کا سود ادا کرتی رہیں گی۔ جس دن اس قوم نے یہ قرض اتار دیا انشاللہ بے پناہ وسائل سے مالا مال یہ ملک سنور جائے گا۔