تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے حالیہ جلسہ لاہور میںجو اپنا گیارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے جس کا پہلا نکتہ ،تعلیم پرزورہے جس کا اس ملک میں مکمل طورپر بیڑہ غرق ہوچکاہے موجودہ حکومت نے تو اس جانب بلکل ہی توجہ نہیں دی ہے ،اس ملک میں محفوظ اور پرسکون ماحول میں تعلیم تک رسائی تقریباً ہر طبقہ فکر کے لیے مشکل ہوچکاہے ، عالمی برادری بھی اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی کرنا ایک ناممکن سا عمل ہے ،اور یہ بات ہمیشہ سے ہی اس ملک کے حکمرانوں کے مفاد میں نہیں رہی ہے ، دوسرا نقطہ صحت اگر ملک میں ہیلتھ کا نظام درست ہوتا تو کیا نوازشریف اور ان کی اہلیہ بیرون ملک میں علاج معالجہ کے لیے جاتے؟،آج اس ملک کے سرکاری ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ یہاں پر آنے والے غریب لوگ رل رہے ہیں ،پاکستان میں صحت کی عدم سہولیات سے اب کون انکار کرسکتاہے اس ملک کے ہسپتالوں کی تعریف کے لیے تنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ تقریباً پندرہ سوافراد کے علاج ومعالجہ کے لیے اس ملک میں صرف ایک بستر ہوتاہے ،ملک میں صحت کے نظام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات اس قدر ناکارہ ہیں کہ جہاں ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے وہاں اس ملک میں میڈیکل اسٹورں پر ملنے والی جعلی ادویات کی روک تھام کا بھی کوئی نظام موجود نہیںہے،یعنی تعلیم کے ساتھ پاکستان میں صحت کے بنیادی نظام کا ڈھانچہ بھی مکمل طور پر تباہ حال ہے۔
تیسرا نقطہ ٹیکس سسٹم درست کرنا،جو فی الحال غریب عوام کا خون نچوڑ کر اپنی جیبوں کو بھرنے تک محودو ہوچکاہے ، موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کا جو جدید نظام اس قوم پر مسلط کیاہے وہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میںجاری سیاسی مداخلت اور اس ملک میں پھیلے کرپشن کے کلچر کے باعث اب ناسور بن چکاہے اگر ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانا ہے تو اس کے لیے ایماندار لوگوں پر مشتمل ٹیم کی ضرورت درکار ہوگی جو فی الحال کرپٹ حکمرانوں کی سربراہی میں کس طرح سے پھل پھول سکتی ہے ،چوتھا نقطہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کا ہے ،یہ وہ نقطہ ہے جو عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی پچاس فیصد ٹھیک کرلیا ہے یعنی کرپشن اور منی لانڈرنگ زدہ اس ملک کے وزیراعظم کو نااہل کرواکر۔ موجودہ حکومت نے جس انداز میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ریکارڈ کھڑے کیئے ہیں اس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے ،آج حکمرانوں کی منی لانڈرنگ کے چرچے بھی زبان وعام پر ہیں جس کا سہرا یقینا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سر جاتاہے ،پانچواں نکتہ سرمایہ کاری میں اضافہ ،جو فی الحال اسحاق ڈار اور موجودہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے نام نہاد کارناموں کے باعث ملک سے مکمل طورپر ختم ہوچکاہے ،پاکستان میں اس وقت کرپشن زدہ حکمرانوں کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں ،ملک میں اس وقت سرمایہ کاری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ،چھٹا نقطہ روزگار کی فراہمی ،جو اس وقت ہر غریب اور مسکین کے گھروں کا چولہا جلانے کے بہت ضروری ہے۔
اس وقت ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے ہر خاص و عام کو پریشان کیاہواہے ،حکومت اس ملک کی عوام کو روزگار کی فراہمی ادا کرنے میں بے بس اس لیے نظر آتی ہے کہ یہ وہ معاملات ہے جس پر ان لوگوں نے شروع دن سے ہی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا ہے ،ان لوگوں نے قرضہ فراہمی اور روزگار دینے کے نام پر کھربوں روپے کی سکیموں پر کام کیا، مگر وہ سارا پیسہ کہاں گیا کہاں لگا اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ حکومت کے پانچ سالوں میں حکومتی حلقوں میں خوشحالی آئی ہے اور اس ملک کا غریب مزید غریب ہوتا رہاہے،ساتوں نقطہ سیاحت کو فروغ دینا ہے، یقینا کسی بھی خوشحال ملک کے لیے سیاحت ایک اہم ترین نقطہ ہے یقینا پاکستان کو سیاحت کی صنعت بناکردنیا بھرکے لوگوں کی توجہ معاشی سرگرمیوں کی جانب مبزول کروائی جاسکتی ہے ،آٹھواں نقطہ زرعی ایمرجنسی کا نفاز،یقینا پاکستان میں زرعی ایمرجنسی کا نفاز وقت کی ضرورت ہے ویسے بھی پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر موجودہ حکومت کی کم عقلی کے باعث ہی ایسا ہوا ہے کہ اس ملک کاکسان آج سڑکوں پر موجود ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان میں معیاری انداز میں خوراک پر توجہ دی گئی توپاکستان کو پوری دنیا میں خوراک برآمد کرنے والا بڑ ملک بنایا جاسکتا ہے، نواں نقطہ وفاق کی مظبوطی ہے۔
یہ بہت اہم نقطہ ہے وفاق جو تمام تر اکائیوں کا مرکز کہلاتاہے جس میں تمام صوبے متحد ہوکر ملک کا نظام چلاکر عام آدمی کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں ،مگر آج ایسا ہرگز نہیں ہے آج وفاق میں بیٹھے حکمرانوں نے اس ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے وہ لوگ بھلا کس طرح سے صوبوں کو ساتھ لیکر چل سکتے جو خود ہی لوٹ مار اورعیاشیوں میں غرق ہو،دوسواں نقطہ پولیس کی اصلاح ہے ،یہ وہ نقطہ ہے جس کی درستگی کے لیے عمران خان پہلے بھی اپنی مختلف تقریروں میں زکر کرتا رہاہے یقینا خیبر پختونخوا کی پولیس کے نظام میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے جس کی تعریف خود چیف جسٹس آف پاکستان بھی کرچکے ہیں ،اس وقت محکمہ پولیس کا صرف یہ کام رہ گیاہے کہ وہ حکمرانوں کے آگے پیچھے گھومتے پھریں وزیراعظم اور وزراء کے پیچھے پولیس کی پچاس پچاس گاڑیاں آگے پیچھے گھوم رہی ہوتی ہیں ہر دور میں اس ملک کے حکمرانوں نے اس ملک کی پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے سانحہ ماڈل ٹائون کس کو یاد نہیں جب تخت لاہور کے کہنے پر ان ہی پولیس والوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ان گنت لاشوں کوبچھا دیاتھامگر افسوس آج تک ان کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان مجرموں کو تلاش کرنا ہے اصل میں مجرم ہی وہ لوگ ہیں۔
گیارہواں نقطہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے ، گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ اورعابد شیر علی کی جانب سے شیریں مزاریں اور پی ٹی آئی کی دیگر خواتین کے بارے میں نازیباں الفاظ نے پوری قوم کے سروں کو شرم سے جھکا دیا ہے لگتا ہے کہ نوازلیگ میں کوئی بھی شخص اس قدر باشعور نہیں ہے جو اس واقعے کی کم ازکم مذمت ہی کرسکے کچھ عرصہ قبل نئے نئے نااہل ہونے والے خواجہ آصف نے بھی قومی اسمبلی میں اس قسم کی نازیباں گفتگو کی تھی اگرایوان میں اس قسم کی گفتگو کرنے والے خواجہ آصف کی اس بیہودگی کا نوٹس لے لیا جاتا تو آج قوم کو رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کے منہ سے اس قسم کی غلاظت سننے کو نہ ملتی میں سمجھتا ہوں کہ ایک طویل عرصہ سے ملک کا نظام صرف اور صرف امراء صاحبان اختیار اور اقتدار کی خدمت میں مصروف رہاہے کبھی کسی حکومت نے یہ نہیں سوچاکہ کہ کسی طرح سے عام آدمی کی زندگی کو بہتر کیا جاسکے کسی حکمران نے اس ملک میں پھیلی ناہمواریوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے گزشتہ دنوں لاہور کے جلسے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جلسے میںجو گیارہ نکاتی منشور پیش کیا گیاہے اس میں وہ ساری چیزیں موجود ہیں جس پر اگر عملدرآمد ہوجائے تو اس ملک کی قسمت سنور سکتی ہے۔
Haleem Adil Sheikh
تحریر: حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل 021.34302441,42 ۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com