لڑکیوں کی شادی میں دیری کا بڑھتا ھوا خطرناک رجحان

Marriage

Marriage

تحریر : اکرم باجوہ ویانا آسڑیا

آج سے تقریبًا پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا، اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی، تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا۔ پچیس سال کی عمر کا ھندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیر ھو گئی ھے…..

♢♢اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ھو سکتا ھے کہ دیری کا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ھو…

پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ھوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قرار دئے جانے لگی۔ یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آ گیا۔

اب بھی ایسے معاملات ھیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس سال کے درمیان ھو چکی ھیں لیکن رشتہ *” ندارد “*۔

یہ رشتہ میں دیری کا رجحان ھمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رھا ھے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ھونے کا پیش خیمہ ھیں۔
لیکن حیف کہ اس کا عملی ادراک معاشرے کے چند لوگوں کو بھی نہیں۔

آئیں! اس دیری کی وجوھات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ھیں،،،،

? *پہلی وجہ*?

لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ھے،،،،
پچھلے کئی سالوں کے بورڈ کے امتحانات کے نتائج اس بات کے شاھد ھیں،،،
اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے ھم پلہ رشتہ ملنا انتہائی مشکل ھو چکا ھے۔
شہروں میں کچھ سالوں سے لڑکیوں میں بڑھتے ھوئے *”پی. ایچ. ڈی”* کے رجحان نے اس کو اور مشکل بنا دیا ھے۔

▪ *دوسری وجہ*▪
H
اچھی تعلیم حاصل ھونے کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتًا آسانی سے مل جاتے ھیں،،،،،
اس کے دو اثرات سامنے آئے ھیں؛؛

▪ *ایک*▪

والدین کا ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع ھو جانا،،،
▪ *دو*▪
نوکریوں کے لحاظ سے ھم پلہ رشتے نہ ملنا۔

? *تیسری وجہ*?

کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل ھل جل نہ کرنا ھے،،
لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس اٹھائیس سال ھو جاتی ھیں لیکن انھیں کم عمر ھی تصور کیا جاتا ھے۔

♧♧ ایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس سال کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ھوجایا کرتی تھیں۔
? یہ رجحان، *الحمد للہ* دینی گھرانوں میں اب بھی بدستور موجود ھے جو کہ ازحد ضروری ھے۔

? *چوتھی وجہ*?

جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ھو جاتی ھے اس کے لئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ھو جاتے ھیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ھوتے ھیں،،،

? *پانچویں وجہ*?

لڑکے والوں کے از حد نخرے ھیں،،،
اول تو کوئی لڑکی، لڑکے کی ماں بہن کو بھاتی نہیں، فقط کھانے پینے سے لطف اندوز ھونا ھی شاید مقصد ھوتا ھے۔
اگر کوئی لڑکی پسند آ بھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسوم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ھے۔

ھمارے ایک ایسے دوست ھیں جن کے گھر والوں نے بیاسی جگہ ان کا رشتہ دیکھا، پھر ایک جگہ ھاں کی،

کچھ عرصہ بعد وھاں سے رشتہ توڑنے لگے تو اس دوست نے انکار کر دیا کہ میں مزید تماشا نہیں دیکھ سکتا..

▪ *چھٹی وجہ*▪

شہروں میں ایک عجیب وجہ سامنے آئی ھے؛
لڑکی کے والدین، لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاھتے ھیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ھوتی ھیں۔

مکان? اپنا ھو،
گاڑی? پاس ھو،
تنخواہ کم از کم اتنی ھو وغیرہ وغیرہ۔
میں اپنے ایک انجینئر دوست کا رشتہ کروا نے کی کوشش میں تھا؛ لڑکا لائق فائق، خوش شکل، نوکری اچھی،،،
لڑکی کی ماں کو بہت پسند تھا، لڑکے والے بھی راضی تھے لیکن اچانک لڑکی کے والدین نے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکے کے پاس اپنا مکان نہیں، وہ کرائے کے مکان میں رھتا ھے۔
اب ایسے رویوں کا کیا کیا جائے؟
کیا یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں؟

? *ساتویں وجہ*?

خاندانوں کے اندر ایک عجیب و غریب وجہ دیکھنے میں آ رھی ھے۔ ھر ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں بخوشی کرنے پر راضی ھے لیکن جب اپنے بیٹے کا معاملہ آتا ھے تو خاندان کی سب لڑکیوں پر ناک بھوں چڑھا لیا جاتا ھے اور بڑے طمطراق اور فخر سے خاندان سے باھر کی لڑکی لائی جاتی ھے۔

●●اس کے علاوہ مزید وجوھات بھی ھوں گی۔

وجوھات جو بھی ھوں لیکن یاد رھے کہ اس سے ھمارا معاشرتی نظام درھم برھم ھو رھا ھے۔ اور ھماری نوجوان نسل، بروقت شادی نہ ھونے کی وجہ سے، میڈیا کی پھیلائی ھوئی، بے حیائی کا بآسانی شکار ھو رھی ھے۔ اور جو محفوظ ھے، وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ھے۔

مغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کو برباد کر چکا اور ان کی آبادی اب ریوَرس گیئر میں چل رھی ھے لیکن ھم جانتے بوجھتے خود اس گڑھے میں گر رھے ھیں اور وہ بھی ھنستے مسکراتے۔

اور ھم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار ھیں۔

صد افسوس!
کشتی ڈوب رھی ھے اور کشتی کے ملاح اور مسافر بے نیاز۔

حَیراں ھوں،،،،
دل کو روؤں
کہ،،
پیٹوں جگر کو میں!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ھم نے بچوں کی بلوغت کے فورًا بعد شادی کو رواج نہ دیا،
اگر ھم نے مطلقہ خواتین اور بیواﺅں کی فوری اور آسان شادیوں کا بندوبست نہ کیا،
اگر ھم نے نکاح کو کاروبار کے بجائے فرض کا درجہ نہ دیا،
اور جتنا کہ نہا دھو کر مسجد میں جا کے جمعہ پڑھنا آسان ھے، اسے بھی اتنا ھی آسان نہ بنایا،
اگر ھم نے زنا کی طرف جانے والے راستوں کا سدباب نہ کیا، اور اسے موجودہ حالات میں اتنا ھی مشکل نہ بنایا جتنا کہ دوسری شادی مشکل ھے،
تو *ریپ* کے مجرم دندناتے رھیں گے،
جبکہ بغیر اجازت دوسری شادی والے سلاخوں کے پیچھے ھوں گے۔!!!
تو گھروں میں بیٹیوں کے لئے رشتوں کی بجائے دوستی کے پیغام آیا کریں گے۔!!!
تو بیٹے شادیوں کی بجائے *افیئرز* اور بیویوں کی بجائے *گرل فرینڈز* رکھا کریں گے۔!!!
تو شوھر اپنے دفتروں میں *معاشقے* چلاتے رھیں گے۔!!!
اور *نیو ایئر نائٹ*، *ویلنٹائین ڈے*، *ھیلوئین* اور چاند رات جیسے تہوار جنسی ھوس کی تسکین کی علامات بنے رھیں گے۔!!!
واللہ یہ آگ ھر اس گھر میں پہنچے گی جو دین فطرت کے اٹل قانون سے منہ موڑے گا اور وہ وقت آ کر رھے گا جب اس *”مقدس”* سرزمین پر بھی ولدیت کے خانے میں لکھا نام مشکوک ھو جائے گا۔
*(نعوذباللہ من ذالک)*
اس تحریر کو شیئر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں . تاکہ ھر فرد کو یہ پیغام پہنچ جاۓ.
شیئر کی صورت میں تعاون۔
آپکے تعاون کوالله تعالی قبول فرماۓ۔ آمین۔

Akram Bajwa

Akram Bajwa

تحریر : اکرم باجوہ ویانا آسڑیا