نبی رحمت آقا کائنات جناب محمدۖ کا فرمان مقدس ہے۔” ایک عادل، قاضی (جج) مسلم امیر کی اللہ کے ہاں بہت قدر ومنزلت ہے۔ اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے ،جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن اللہ کے (دیئے ہوئے ) سائے میں ہوگا جس دن کسی کو کوئی سایہ نہیں ملے گا ”(بخاری۔مسلم ۔احمد نسائی)امام عادل قیامت کے دن رحمان کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوگا ۔اللہ تعالیٰ کے دونوں دائیں ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رحمت کائناتۖ نے فرمایا ”تین قسم کے افراد ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی ۔1۔امام عادل 2۔روزہ دار جب تک روزہ افطار نہ کر ے 3۔مظلوم کی دعا بادلوں کے اوپر چلی جائے گی قیامت کے دن ،آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دئیے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو(ترمذی شریف)حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ہیں کہ رحمت عالم ۖنے فرمایا :تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ۔اللہ کا بہت ذکر کرنے والا ،مظلوم اور امام عادل (بہیقی شعب الایمان)اسلام آباد کے ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک اور تاریخ ساز فیصلہ سنایا ”رمضان المبارک کے دوران ٹی وی چینلز پر ہر قسم کے نیلام گھر پر پابندی عائد کردی رمضان ٹرانسمیشن اورمارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہر چینل کے لیے پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہوگا ۔اسلام کا تمسخراڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔
اسلامی تشخص اور عقائد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اس مرد قلندر جسٹس مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اللہ تعالیٰ نے اس جرات سے نوازا ہے کہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے بڑوں بڑوں سے ٹکرا جاتے ہیں اور موقع ملنے پر میڈیا کا بھی قبلہ درست کرنے اور چینلز کو غیر اسلامی اور غیر آئینی مواد دکھانے اور روکنے کے لیے ذرا برابر بھی نہیں کتراتے نہ ہی ایسے فیصلے کرتے وقت انکی قلم لرزش کھاتی ہے ۔افسوس صد افسوس کہ جس ماہ مقدس کی فضیلت اللہ تعالیٰ خود بیان کرتے ہیں جس مبارک ماہ میں قرآن نازل ہوا ۔نبی رحمتۖجس ماہ میں عبادت اور ریاضت کے لیے کمر کس لیتے تھے اور صحابہ اکرام کو بھی تاکید فرماتے۔ اس ماہ مقدس میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ،اسی لیے یہ ماہ مقدس دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ روزہ کا اجراللہ رب العزت خود دیتے ہیں کیونکہ روزہ اللہ رکھنا اللہ تعالیٰ پسندیدہ عمل ہے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے حضور کریم ۖکا فرمان عظیم ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں ۔1۔یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ انکی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2۔ یہ کہ شام کے وقت انکے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔3۔یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن انکے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں4۔یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ”میرے نیک بندوں کے لیے مزین ہوجاہے عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ۔5۔یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ نبی رحمتۖ نے فرمایا کہ جنت کا ایک دروازہ جس کا نام ریان ہے ،جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار گزرے گا۔
رمضان المبارک کی اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہوگی کہ حضرت جبرائیل نے دعاکی ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے ۔تو رحمت کائنات نے آمین کہا۔اس ماہ مقدس کا احترام تو غیر مذہب کے لوگ بھی کرتے ہیں مگر باعث شرم بات یہ ہے کہ چند روشن خیالوں ، جاہلوں ،سیکولز ،ملحد اور دین بے زار افراد نے یہود ونصاریٰ کا آلہ کار ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اس ماہ مقدس کو عیاشی وفحاشی کا مہینہ بنادیا ہوا ہے۔سال کے گیارہ ماہ تک غیر مردوں وغیر عورتوںکے گلے میں باہیں ڈال کر ناچنے گانے والوں بشمول ادکار ،ادکارائیں اور گلوکار ،گلوکارائیں کو اس ماہ مقدس میں پروگرام کروانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے سارا سال مختصر کپڑوں رہنے والی بے حیائوں کو شلوار قمیض پہنا کر سر پر دوپٹہ دلوا کر ،اور سارا سال مذہب اسلام کا تشخص مجروع کرنے والے غلیظ مردوں کو شلوار قمیض اور واسکٹ پہنا کر ٹی وی چینلز پر بیٹھا دیا جاتا ہے ۔وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ گلے میں نبیۖ کے عشق کا پٹہ ہونا چاہیے سرپہ دوپٹہ شوپٹہ کی ضرورت نہیں ۔یہ لوگ ہمیں مذہبی تعلیمات کا درس دیتے ہیں ۔جھوٹے ،من گھڑت قصے،کہانیاں بیان کریں گے ۔بتائیے کہ جس نبی رحمتۖکی شان پورا قرآن بیان کرتا ہو ،جس پاک ہستی پہ ہمہ وقت اللہ اور اسکے فرشتے درود وسلام بھیجتے ہوں اس رحمت کائنات ۖپر بہتان باندھنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا نہیں تو اور کیا ہے؟
پاکستانی ڈراموں کے اندر اغیار کے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ۔جہاں بیٹا ماں کو ماں کی جگہ یار کہے اور باپ کو اوئے اورپاگل جہاں بہن بھائی کے سامنے آدھے لباس میں آئے گی ،ماں اپنے دوست کو بچوں کے سامنے ملے گی وہاں پر یہودونصاریٰ اور ہندئو کلچر کو ہی فروغ ملے گا ویسے بھی ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کا یہ کہنا کہ ہم ایک ہی ہیں کوئی اللہ کو بھگوان کہتا ہے تو کوئی رب ،ہم ایک ہیں اور ہمارے درمیان لائن لگادی گئی ہے ۔جب کہ ہم دوایگ قومیں تھیں ہمارے الگ نظریات تھے۔پاکستانی چینلز پر مارننگ ودیگر شوز دیکھنے کے قابل نہیں ۔برحال میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو خراج تحسین پیش کروں کہ انہوں نے صدیقی ہونے کا حق ادا کردیا ہے ہمیشہ کی طرح جسٹس مسٹرجسٹس شوکت صدیقی کے اس جرات مندانہ فیصلے سے اللہ اور اس کے حبیب راضی ہوئے ہوں گے دوسروںطرف دین بے زار بہروپیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی کہ اب ان کا رمضان ڈرامہ بند ہوگیا ہے اب وہ کون سا ڈھونگ رچائیں گے؟وہ ملاں ،مولوی،مفتی حضرات جنہوں نے رمضان کے حوالے سے خصوصی طور پر رنگ برنگے ملبوسات بنوائے تھے ان کا تو پیٹ خالی رہ گیا؟یہ وہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہیں جنہوں نے مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز مواد سوشل میڈیا پر نشر کرنے کے ذمہ داران کو دہشت گرد قرار دیا تھا جنہوں نے سوشل میڈیا سے تمام گستاخانہ مواد فوراًبلاک کرنے اور گستاخوں کے نام ای ایل سی میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اوراپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اگر ہم نے محسن انسانیت ۖکی توہین نہ روکی تو پاکستان خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ناموس رسالت ۖکا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
اس فیصلے پر کافی خود ساختہ دانشوروں نے واویلا مچایا تھا بسنت پر پابندی پر اس وقت کی عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ ججز عدالتیں چھوڑ کر امام مسجد بن جائیں ۔افسوس کہ ایسے جرات مندانہ اور تاریخ ساز فیصلوں پر ایسے ججز کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔مگر افسوس ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔آخر میں عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے ایک اور اپیل !زندگی کے ساتھ موت لازمی اور اٹل ہے مگر لاہور میانی صاحب ودیگر قبرستانوں میں ایک قبر کی قیمت بارہ ہزار سے لیکر اٹھارہ ہزار روپے تک ہے گاہگ دیکھ کر Bargainingکی جاتی ہے دوہزار کا کفن دوہزار مردہ نہلانے کا پہلے دن بریانی کی دیگ سے لیکر قُل پر تقریباًتیس چارلیس ہزار روپے کا خرچہ ہے ۔یعنی ایک غریب جو مہینے کا پندرہ سے بیس ہزار روپے کماتا ہے اس کا کوئی مرجائے تواس کو کفن دفن کے لالے پڑ جاتے ہیں۔مردہ تدفین بھی ریاست کی ذمہ داری ہے مہربانی فرماکر یہ قُل وغیرہ کی خود ساختہ رسومات کا یا تو خاتمہ کیا جائے یا پھر مولویوں کو مرنے والے گھر سے فروٹ اور بریانی پر ہی لازمی ختم پر پابندی عائد کی جائے اور رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بھی ایکشن لیا جائے تاکہ میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو