اپنی تصویر ڈھونڈتا ہوں میں سو رہا ہوں نہ جاگتا ہوں میں کِس اذیت کو جھیلتا ہوں میں ساری دنیا سے بے خبر ہوکر تیرے بارے میں سوچتا ہوں میں جانے کس جرمِ بے گناہی میں اب بھی سولی پہ جھولتا ہوں میں اِس جہاں کے نگار خانے میں اپنی تصویر ڈھونڈتا ہوں میں تو میرے پاس ہے مگر پھر بھی تجھ کو خود میں ٹٹولتا ہوں میں آ کبھی دیکھ میرے ہرجائی عمر کیسے گزارتا ہوں میں یوں ہوئے دربدر زمانے میں وہ مجھے اُس کو ڈھونڈتا ہوں میں